وزیراعظم شہباز شریف نے سی پیک کے دس سال مکمل ہونے پر پاکستان اور چین کو مبارکباد پیش کی ہے اور بھارت کو پیشکش کی ہے کہ وہ سی پیک میں رکاوٹ بننے کے بجائے اسکے ثمرات سے فائدہ اٹھائے۔ بدھ کے روز وزیراعظم ہائوس کی جانب سے جاری اپنے بیان میں اور ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ سی پیک سے ایران‘ افغانستان‘ وسطی ایشیاء اور پورے خطے کو ثمرات ملیں گے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ چین کے صدر شی جن پنگ کی سوچ کا مظہر ہے۔ چین اور پاکستان آئرن برادر ہیں اور سی پیک اس آزمودہ سدا بہار اور بااعتماد سٹرٹیجک کواپریٹو پارٹنر شپ کا ایک نیا باب ہے۔ سی پیک درحقیقت چین کے عظیم رہنما شی جن پنگ اور پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے ’’ترقی سب کیلئے‘‘والے ویڑن کا شاندار نمونہ ہے۔ یہ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے خاتمے کا منصوبہ ہے۔ شہباز شریف کے بقول سی پیک خطوں اور علاقوں کو ہی نہیں‘ عوام کے دل جوڑنے کا بھی خوبصورت منصوبہ ہے۔
سی پیک کی مفاہمتی یادداشت پر دستخطوں کی ایک دہائی مکمل ہونے پر گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک تقریب بھی منعقد ہوئی جس میں وزیراعظم شہبازشریف نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ تقریب میں چینی ناظم الامور سمیت چین اور پاکستان کے حکام بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم محنت کرکے پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرینگے اور اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلائیں گے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ چار سال سی پیک کی راہ میں رکاوٹ آئی اور چین جیسے عظیم دوست پر بے بنیاد الزامات عائد ہوئے۔ ہم سی پیک پر کام کی رفتار دوگنا کررہے ہیں۔
دریں اثناء وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت گزشتہ روز ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں معیشت کی بحالی اور سرمایہ کاری سے متعلق اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں، جس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر بھی شریک تھے‘ سرمایہ کاری اقدامات تیز کرنے اور خوشحالی یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعظم کے بقول ڈیفالٹ کا دور دور تک کوئی امکان نہیں‘ ہم نے معاشی صورتحال کو سنبھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کی بہتری کیلئے آرمی چیف کا کردار قابل ستائش ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور چین کی بے لوث‘ پائیدار اور بے مثال دوستی ان دونوں ممالک اور انکے عوام کے علاوہ پورے خطے کی ترقی و خوشحالی اور امن و استحکام کی ضامن ہے۔ دونوں ممالک کے سٹریٹجیکل مفادات بھی سانجھے ہیں اور بیرونی خطرات کے تناظر میں اپنے دفاع کے حوالے سے دونوں ممالک کی ضرورتیں اور دفاعی حکمت عملی بھی مشترکہ ہے۔ 1948ء میں چین کی آزادی کے بعد اسے تسلیم کرنے اور اسکے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز کرنے والا بھی پاکستان پہلا ملک تھا۔ چنانچہ پاکستان چین دوستی اسکے آغاز سے اب تک گہری سے گہری ہوتی چلی گئی جن کے مابین اعتماد‘ اعتبار کا بھی انمٹ رشتہ استوار ہوا ہے جبکہ ہر آزمائش و ابتلا کے وقت برادر چین پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا نظر آیا ہے۔
بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تناظر میں پاکستان اور چین دونوں کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشیں پروان چڑھاتا رہتا ہے اس لئے فطری طور پر پاکستان اور چین ایک دوسرے کا دفاعی حصار بھی بن گئے ہیں۔ بھارت نے وادیِ کشمیر پر اپنا فوجی تسلط جمایا تو چین نے ہر عالمی اور علاقائی فورم پر پاکستان کے اصولی موقف کی کھل کر حمایت کی اور بھارت نے پاکستان پر یکیبعد دیگرے تین جنگیں مسلط کیں تو چین کی جانب سے پاکستان کو حربی اور جنگی سازوسامان کی کمک ملتی رہی۔ بھارت نے چین کے علاقے اروناچل پردیش پر 1962ء میں اپنا تسلط جمانے کی کوشش کی تو پاکستان نے چین کے موقف کی کھل کر حمایت کی۔ اس تناظر میں ہی پاکستان اور چین دفاعی حصار کے مضبوط قالب میں ڈھلے ہیں۔
اسی طرح تین دہائیاں قبل پاکستان میں توانائی کے بحران کا آغاز ہوا تو چین نے اس بحران سے عہدہ براء ہونے کیلئے بھی پاکستان کی بھرپور معاونت کی اور اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر پاکستان کو چھ ایٹمی پاور پلانٹ فراہم کئے۔ چار سال قبل دنیا میں کورونا وائرس کی افتاد ٹوٹی تو چین نے پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو سنبھالنے کیلئے اربوں ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیجز کے ذریعے اسکی بھرپور معاونت کی۔ پاکستان چین بے لوث دوستی اور سٹریٹجیکل شراکت داری کا ثمر ہی گزشتہ دہائی میں ہمیں پاکستان چین مشترکہ اقتصادی راہداری (سی پیک) کی صورت میں ملا اور 2013ء میں دونوں ممالک کی قیادتوں نے پورے خطے کیلئے گیم چینجر بننے والے اس عظیم منصوبے کی یادداشت پر دستخط کئے۔ یہ منصوبہ پاکستان چین دونوں کے مشترکہ دشمن بھارت کو ہضم نہ ہوا اور اس نے امریکہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے اس منصوبہ کو متنازعہ بنانے کی سازش کی جس کے بارے میں امریکی پینٹاگون اور واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ بیانات جاری کرکے سی پیک کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا جانے لگا۔ اس پر چین نے امریکہ اور بھارت دونوں کو شٹ اپ کال دی اور باور کرایا کہ سی پیک چین اور پاکستان کا باہمی مفادات کے حوالے سے سانجھا منصوبہ ہے جس میں کسی اور ملک کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اسکے باوجود بھارت نے امریکی سرپرستی میں سی پیک کیخلاف سازشیں جاری رکھیں اور اس منصوبے کے حوالے سے ایران اور افغانستان کو بھی پاکستان کے ساتھ بدگمان کرنے کی کوشش کی اور ایران کو چاہ بہار پورٹ کی تعمیر میں معاونت کا بھی چکمہ دیا تاہم ایران اس بھارتی ٹریپ میں نہ آیا اور سی پیک کی نظر آنیوالی افادیت کے پیش نظر ایران کی قیادت نے ایران کو سی پیک کے ساتھ منسلک کرنے کا عندیہ دے دیا۔
پی ٹی آئی دور حکومت میں یقیناً ایک منظم سازش کے تحت سی پیک کے حوالے سے بدگمانیاں پیدا کی گئیں جو برادر چین کو بھی ناگوار گزریں اور چار سال تک سی پیک کے منصوبے پر کسی قسم کی پیش رفت نہ ہو سکی۔ پی ٹی آئی حکومت کی اس حکمت عملی کا لامحالہ بھارت کو فائدہ پہنچا جو پاکستان کی معیشت کو پھلتا پھولتا اور مستحکم ہوتا دیکھ ہی نہیں سکتا۔
اسی فضا میں گزشتہ سال تشکیل پانے والی اتحادی جماعتوں کی حکومت نے سی پیک کو اپریشنل کرنے کا ازسرنو بیڑہ اٹھایا اور اس حوالے سے چین کے تحفظات بھی دور کئے چنانچہ آج سی پیک اس پورے خطہ کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت بنا نظر آرہا ہے جس کے ذریعے خطے کے ممالک کو عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل ہوگی تو تجارت کے فروغ پانے سے پورے خطے کے عوام کے اچھے مستقل کے دروازے کھلیں گے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے معاہدے کے دس سال پورے ہونے پر وزیراعظم شہبازشریف نے جہاں پاکستان چین دوستی کے ثمرات پورے خطے کو ملنے کا عندیہ دیا وہیں بھارت کو پیشکش بھی کی کہ وہ سی پیک میں رکاوٹ بننے کے بجائے اسکے ثمرات سے فائدہ اٹھائے تاہم بھارت کی ڈنک مارنے والی فطری عادت و ذہنیت کے باعث اس سے خیر کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ وہ اگر سی پیک کے ساتھ منسلک ہوگا تو اس کیخلاف اپنا سازشی ذہن ہی بروئے کار لائے گا۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم کی مخلصانہ پیشکش اپنی جگہ مگر اس سے محتاط رہنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ سی پیک بہرحال چین اور پاکستان کی قیادتوں کا کریڈٹ ہے جسے ضائع ہونے دینے کے ہم کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتے۔