تعلیم وتربیت

Jul 07, 2023

رابعہ رحمن

معاشرے کے دو اہم ترین عناصر والدین اوراساتذہ ہیں جن پر ہی بچے کی تعلیم و تربیت کا انحصار ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تربیت والدین کی ذمہ داری ہے اور تعلیم اساتذہ کی جبکہ عملی طور پر ایسا نہیں ہے استاد پر اگرچہ تعلیم کی ذمہ داری زیادہ ہے لیکن وہ تربیت کے فرض سے مبرا نہیں ہیں۔ا سی طرح والدین پر تربیت کی ذمہ داری زیادہ ہے لیکن وہ بچے کی تعلیم سے خود کو الگ نہیں کر سکتے۔ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ بچہ اپنے ماحول کاا ثر بہت جلدی قبول کرلیتا ہے اور حقیقت بھی ہے، اپنے اردگرد جو وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے اسے اپنا لیتا ہے، بچہ عمر کے اس دور میں صحیح اور غلط میں امتیاز نہیںکر پاتا کیونکہ وہ تو سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے، جو دیکھتا ہے سنتا ہے اسی کے تناسب سے بچے کے ذہن میںایک خاکہ تیار ہوتا ہے جو اس کے ذہن میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔ ماہرین نفسیات یہ مانتے ہیں کہ ایک بچے کا دماغ کورا کاغذ اور خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے، ابتدائی عمرسے لے کر اسے شعورآجانے تک یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے کیسا ماحول فراہم کر رہے ہیں کیونکہ وہ جس ماحول میں اورجیسے لوگوں کے درمیان رہے گا جو انھیں کرتا دیکھے گاوہی اس کورے کاغذیا سلیٹ پر تحریر ہو جائے گا۔ اب جو نقش ہوگا وہ تاعمر محفوظ رہے گا،انھیں کے اطوار وآداب وہ ازخود سیکھتا جائے گا، بتدریج یہ ذمہ داری چند سال بعد اساتذہ کے کندھوںپرآ جاتی ہے۔
دنیا کے ٹاپ فیشن ہائوسز کی بنیاد رکھنے والے مشہور فرنچ ڈیزائنر کرسچن ڈی آور نے کہا تھا حقیقی شائستگی کا راز عمدہ تربیت ہے، بیش قیمت ملبوسات، حیران کن زیبائش اشیاء اور خیرہ کن حسن کی تربیت عمدہ تربیت کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اسلام میں استاد کو روحانی باپ کا درجہ اسی لیے دیا گیا ہے کیونکہ اگروالدین بچے کی ظاہری شخصیت کو سنوارتے ہیںتو استاد ان کے باطن کو نکھارتے ہیں، کیا آج کے اساتذہ تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت ان خطوط پر کر رہے ہیں جو بحیثیت اساتذہ ان کی ذمہ داری ہے؟ ایک استاد اپنے طلبہ کے لیے رول ماڈل ہوتا ہے، طلبہ اساتذہ کے لیکچر سے زیادہ اس کے عمل کا اثر قبول کرتے ہیں۔ایک بہترین استاد وہی ہوتا ہے جو اپنے طلبہ میں ان اوصاف کو دیکھناچاہتا ہے ۔اپنے طلبہ کو جن عادات و خصوصیات کا آئینہ دار بنانا چاہتا ہے انھیں خودپر لازم و ملزوم کرلے، اگراساتذہ خوش اخلاقی، صلہ رحمی، صبر و تحمل کا پیکر ہوں تو ان کے تلامذہ میںبالخصوص یہ عادت پائی جائیں گی اور یہی تربیت کی عمدہ مثال ہے۔
دنیا بھر میںیہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے اور ہر قوم میںتعلیم و تربیت کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے، اس لیے تو یہ کہا گیا ہے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماںکی آغوش ہوتی ہے، پھریہ بھی کہا گیا ہے ایک ماں اچھی تعلیم و تربیت سے ایک اچھی نسل تیار کرتی ہے، بچے کی تعلیم اور تربیت گھریلو سطح پر فقط ماں پر ہی نہیںبلکہ ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے اوربچے کے لیے تو پہلا رول ماڈل ماں باپ ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں مائیں بچوں کو زندگی کے مختلف مراحل پر اچھی بیوی، بیٹی، بہن بننے کے فارمولوں سے تو آگاہ کرتی رہتی ہیں لیکن ایسا شاذو نادر ہے کہ لڑکیوں کو شادی سے پہلے اچھی ماں بننے کے بارے میں اس کے فرائض سے آگاہ کیا جائے۔ چاہیے تو یہ اس کام میں ماں اورباپ دونوں شرکت کریں لیکن جانے کیوں معاشرتی بندش ازخود لگائی گئی کہ بیٹی کے تمام معاملات کی ذمہ داری فقط ماں پرڈال دی گئی اور باپ کو بری الذمہ کر دیا گیا ،دوسری طرف ایسی ہی صورتحال بیٹوں کے پرورش کے معاملے میںبھی ہوتی ہے۔
بحیثیت مسلم اورپاکستانی قوم ہماری حالت قابل رشک نہیں، ہمارا تعلیم معیار،اداروں کی حالت، نظام تعلیم وتربیت قابل رحم حالت میں ہے۔ اس پریہ کہ غیر مسلم قوتیں اسی نکتہ پر کام کر رہی ہیں کہ نوجوان مسلم کی سوچ و فکر کے زاویے کبھی درست سمت اختیار نہ کر پائیں۔ میڈیا کا طوفان باطل حق کے متوالوں کو اپنی غیر اخلاقی جولانیوں کا شیدا بنانا چاہتا ہے۔ تحقیق کے میدانوں سے شاہین بچوں کو نکال باہر کرنے کا منصوبہ خطرناک حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔ اسی بناء پر ہم ان کے در پر کاسہ گدائی لیے نظرآتے ہیں۔ مغربی تہذیب وتمدن کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ آج ہمارے طالب علم اپنی آفاقی تہذیب کو چھوڑ کراسی تہذیب کے پیکربن چکے ہیں اور اپنے مذہب، اپنی اقدار و روایات پرشرمندہ نظر آتے ہیں۔ مسلم طلبہ کو علم سے دور کرنے کے لیے اغیار بلکہ اپنے ناعاقبت اندیش لوگوں نے کتاب سے دور کردیا۔ وہ نوجوان جس نے ملت کی تقدیربدلنا تھی اس کے ہاتھوں میں ہتھیار دے دیے، جو اپنے ہی ملک کے مفاد پر ضرب لگا رہا ہے۔ اپنی منزل سے بے خبرناچ گانے، بے ہودہ محافل ، مخلوط تعلیم کی آڑ میںبے حیائی وفحاشی میں مگن ہو کرملت کے ستارے کو روشنی سے محروم کر رہا ہے۔ توحید کے حسن، سنت نبویؐ کے رنگ، قرآن کے انقلاب سے محروم طلبہ امت کے زوال کی خوں رنگ حالت کی عکاسی کر رہے ہیں اس کی فکر پر جمود، سوچ پر قنوطیت، وجودپر عیش و عشرت کا راج ہے۔
گلا تو گھونٹ دیا تیرا اہلِ مدرسہ نے
کہاں سے آئے صدا لا الہ الاللہ

مزیدخبریں