حاکم اور محکوم کے درمیان جب ایک بنیادی تفریق پیدا ہوئی تو استعمار کی اصطلاح بھی سامنے آئی۔ شروع میں استعماریت کے آثار قدیم مصریوں، فونیقیوں اور یونانیوں کے ہاں ملتے ہیں۔ ان قوموں نے جبر و تسلط کے زیر اثر اپنے عہد کی پرامن اور ضعیف اقوام پر تسلط جمایا، اسکے بعد عثمانی، روسی اور آسٹریائی نسلیں نوآبادیاتی قوت کی شکل میں سامنے آئیں۔ قریب کے دور میں برطانوی، فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی اور ولندیزی اقوام نے صنعتی و مشینی ترقی کے بعد دنیا فتح کرنے کا خواب دیکھا اور بڑی حد تک اس کی تعبیر بھی پالی۔ عالمی سطح پر روسی ادیبوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے مغربی اقوام کے مذموم مقاصد کا پردہ فاش کیا ہے۔ اسی قسم کے ادیبوں کی وجہ سے فی الوقت نوآبادیات اور اس کے متعلقات عالمی ادب کا پسندیدہ موضوع ہیں۔
پاک و ہند میں انگریزوں کی آمد سے پہلے یہاں کا مذہبی اور معاشرتی ماحول خاصا معتدل تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندستانی سماج میں مغلیہ سلطنت کے متعارف کردہ جاگیردارانہ نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ کمپنی نے اسکے مقابلے میں ریاست اور مزدور کا تصور دیا، مگر ایک عام آدمی کی زندگی میں موجود غربت و افلاس جوں کی توں موجود رہی۔ علم و دانش کے جدید تصورات بھی محض مقتدر طبقے تک ہی پہنچ سکے۔ نوآبادیاتی نظام کی ضرورتوں کے پیش نظر برصغیر میں مختلف قسم کے بودے اور ریت سے تعمیر شدہ’’ ابوالہول‘‘ متعارف کروائے گئے۔ مغربی قوتوں نے ہندستان کے کثیر القومی معاشرے میں موجود اختلافات سے فائدہ اٹھایا اور انھیں اپنے ناجائز مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ 1857ء کی تحریک آزادی کی ابتدا تو میرٹھ چھاونی سے ہوئی لیکن اس کے اثرات برصغیر کے سیاسی مراکز کے دور دراز علاقوں تک محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ پنجاب اور اہل پنجاب پر ہمیشہ برطانوی نوآبادیاتی قوتوں کا مددگار ہونے کا الزام لگا یا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہاں آزادی کی جدوجہد کے نقوش بھی محض چند اضلاع میں دکھائی دیتے ہیں۔ انگریزوں نے پنجاب سے کثیر تعداد میں فوجیں بھرتی کیں، یہاں کے طبقہ اشرافیہ کی وفاداریاں بھی خریدیں، لیکن یہ کہنا بھی شاید مکمل طورپر درست نہ ہوگا کہ پنجاب نے کسی سطح پر بھی سہی، وطن کی آزادی کی تحریک میں اپنا باقاعدہ کردار ادا نہیں کیا۔مغلیہ خاندان کے زوال کے دوران پنجاب بھی دیگر صوبوں کی طرح علامتی طور پر دہلی کی سلطنت کا باج گزار تھا۔ 1730ء میں یہ صوبہ جزوی طور پر اور 1799ء میں مکمل طور پر اس وقت خودمختار ہوا، جب مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب کا حکمران بنا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ رنجیت سنگھ نے بہ طور حاکم پنجاب اپنے تقرر کا پروانہ اور خلعت برصغیر کے مغل فرماں روا کی بجائے افغانستان کے بادشاہ شاہ زمان درانی سے حاصل کیا۔ 1839ء میں مہاراجہ کی وفات کے بعد پنجاب میں خاصی انارکی پھیلی اور رنجیت سنگھ کے جانشینوں کی نااہلی کے سبب انگریزوں نے حکومتی معاملات میں مداخلت شروع کر دی۔ 1857 ء سے ایک دہائی پہلے پنجاب نے نوآبادیاتی نظام کے خلاف اپنی پہلی جنگ کی ابتدا کر دی تھی۔ یہ جنگ 1845ء سے 1849ء تک پانچ سال جاری رہی۔ افسوس کہ تاریخ کے یہ روشن واقعات تاحال سخن ہائے ناگفتی ہیں۔ 1857 ء کی جنگ آزادی کے دوران اگر پنجاب نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی غلامی قبول کر لی ہوتی تو یہاں آزادی کے متوالوں کو اذیت ناک سزائیں نہ دی جاتیں۔ تاج برطانیہ کے دور میں حکومت پنجاب کی شائع شدہ پنجاب ایڈمنسٹریشن رپورٹ کیمطابق حکومت برطانیہ نے تاج کیخلاف بغاوت کے الزام میں ایک سال میں ہزاروں افراد پر مقدمات چلائے۔ ان میں سے بیشتر حریت پسندوں کو موت کی سزا سنائی گئی، کئی لوگوں کوعمر قید ہوئی اور متعدد شہریوں کو کوڑے مارے گئے جبکہ دو سو سے زائد افراد کو سخت جرمانہ ادا کرنا پڑا۔
جنگ آزادی میں پنجاب کے عام طور پرخاموش رہنے کی ایک وجہ وہ زرعی اصلاحات تھیں، جن کے باعث 1849ء سے 1857ء تک کاشت کاری کی دنیا میں ایک نیا انقلاب آگیا، جس کے باعث عام آدمی کی معاشی زندگی میں بہتری آئی۔ پنجاب کی مختلف قوموں کی باہمی مخالفت نے بھی ماحول کو معتدل رکھا۔ پنجاب کے کسی علاقے میں جب کوئی انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا تو اس کے مخالفین انگریزوں کی حمایت کا اعلان کر دیتے۔ 1857ء میں پنجاب کے حالات مرکز سے مختلف تھے، دہلی اور میرٹھ میں چند وجوہات کی بنا پر صورت حال اچانک تبدیل ہوئی، انگریز اس کا مقابلہ کرنے کیلئے قطعی طور پر تیار نہ تھے۔ پنجاب میں حکومتی عناصر کو ٹیلی گرام کے ذریعے تمام صورتحال سے آگاہ کردیا گیا تھا، اس لیے انھوں نے ہر قسم کی مشکل کا سامنا کرنے کی تیاری کرلی تھی، اسکے باوجود پنجاب میں ایک عام آدمی برطانوی سامراج کو ناپسند کرتا تھا۔ تراب الحسن سرگانہ کی تحقیق کے مطابق متعدد علاقوں میں برطانوی حکومت کے خلاف آواز اٹھی، مری، سیال کوٹ، جہلم، لاہور، جھجھر، لدھیانہ اور ساہیوال میں شجاعت اور بہادری کی داستانیں رقم ہوئیں۔ پنجاب میں آزادی کے حصول کیلئے مسلح جدوجہد کرنے والوں میں ہریانہ میں راو تلا رام، جھجھر کے نواب عبدالرحمان، فرخ نگر کے نواب احمد علی خان، مری سے رسول بخش، امیر علی اور سید کرم علی، بہادر نگر سے نواب بہادر جنگ خان اور ساہیوال اور فیصل آباد کے درمیان سے گزرنے والے دریائے راوی کے دونوں کناروں پر آباد قبائل میں رائے احمد خان کھرل، سارنگ خان، بہاول فتیانہ، مراد فتیانہ، ولی داد مردانہ، موکھا ویہنیوال، سوجا بھدرو، جلھا ترہانہ، مامد کاٹھیا اور نادر شاہ قریشی کی برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت عوامی حافظے کا حصہ ہیں۔
اس جدوجہد کے نتیجے میں انگریزوں نے بہت سے حریت پسندوں کو شہید کر دیا، جو بچ گئے انھیں ملک بدر کر کے جزائر انڈیمان میں بھیج دیا گیا۔ رائے احمد خان کھرل اور ان کے ساتھیوں کی مسلح جدوجہدآزادی کے اثرات پنجابی لوک ادب پر بھی مرتب ہوئے۔گنجی بار، ساندل بار اور نیلی بار کے یہ علاقے قدیم تہذیبوں کے امین ہیں۔رائے احمد خان کھرل کی قیادت میں آغاز ہونے والی اس تحریک کو برطانوی سامراج نے بظاہر بے رحمی سے کچل دیا، لیکن عوامی سطح پر اس کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ مسلح تحریک کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ احمد خان کھرل کے ڈھولے ہماری زبانی تاریخ (oral history) کا حصہ ہیں۔