عید غدیر (اعلانِ ولایت ِ ،مولا علیؓ)

معزز قارئین ! آج 18 ذوالحجہ ہے۔ آج کے دِن 18ذوالحجہ 10 ھجری کو ’’ غدیر خْم‘‘ کے مقام پر ’’مدینۃ اْلعلم‘‘ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ’’باب اْلعلم‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے خطبے میں فرمایا کہ:
 ’’جس کا مَیں مولا ہْوں ، اْس کا علیؓ بھی مولا ہے‘‘۔ آپ نے پھر فرمایا ’’یااللہ! آپ اْس شخص کو دوست رکھیں جو علیؓ کو دوست رکھے۔ عربی زبان میں مولا کے معنی ہیں۔ ’’ آقا ، سردار ، رفیق۔ 
’’ انیس اْلارواح !‘‘
معزز قارئین! خواجہ غریب نواز نائب رسول فی الہند، حضرت معین اْلدّین چشتی اجمیری۔ (1143ئ۔ 1236ئ) کے پِیرو مْرشد حضرت خواجہ خواجگان ، خواجہ عثمان ہارونی (1107ئ۔ 1220ئ) کی ’’انیس اْلارواح‘‘ جس کی 27 مجالس پر مشتمل عظیم اْلشان تصنیف کو حضرت خواجہ معین اْلدّین چشتی نے مرتب کِیا تھا۔ 
’’چوتھی مجلس!‘‘
چوتھی مجلس میں خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ ’’ایک دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم تشریف فرما تھے اور صحابہ ؓ  بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہ امیر اْلمومنین ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اْٹھے اور عرض کِیا کہ …:
’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم! میرے پاس 40بردے (غلام یا کنیزیں) ہیں ، مَیں نے 20 بردے خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے آزاد کر دئیے ہیں !‘‘۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے دْعائے خیر کی، اتنے میں مہتر (مخدوم) جبرائیل علیہ السلام نازل ہْوئے اور کہا کہ:
 ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم! حکم الٰہی یہی ہے کہ ابو بکر صدیقؓ کے جتنے بال ہیں آپ کی اْمت میں سے اْسی قدر آدمیوں کو ہم نے دوزخ کی آگ سے نجات دِی اور اِسی قدر ثواب ابو بکر صدیقؓ نے حاصل کِیا!‘‘۔
 اْس کے بعد امیر اْلمومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اْٹھ کر آداب بجا لائے اور عرض کِیا کہ:
 ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم! میرے پاس 30 بردے ہیں ، اْن میں سے 15 مَیں نے خْدا کی رضا کے لئے آزاد کردئیے ہیں !‘‘۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے دْعائے خیر کی اتنے میں مہتر جبرائیل پھر اْترے اور کہا کہ ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم! فرمانِ الٰہی اِسی طرح پر ہے کہ:
 ’’ جس قدر رگیں اْن بردوں کے جسموں پر ہیں ، اْس سے پچاس گْنا آدمی آپ کی امت کے مَیں نے دروزخ کی آگ سے آزاد کئے اور اِسی قدر ثواب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت ہْوا۔‘‘
 اِسکے بعد ’’امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اْٹھ کر آداب بجا لائے اور عرض کِیا کہ:
 ’’میرے پاس بردے بہت ہیں اْن میں سے مَیں نے 100 بردے خدا کی رضا کے لئے آزاد کر دئیے ہیں!‘‘۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے دْعائے خیر کی اور مہتر جبرائیلؑ نے حکم الٰہی اِس طرح بیان کِیا کہ
 ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم! جتنی رگیں اِن بردوں کے بدنوں پر ہیں ، اْن سے 100 گنا آدمی آپ کی اْمت کے بخشے گئے اور ثواب حضرت عثمانؓ  کو عنایت ہْوا! ‘‘۔ 
اْس کے بعد خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ ’’امیر اْلمومنین حضرت علی مرتضیٰ ؓ اْٹھے اور آداب بجا لا کر عرض کِیا کہ:
 ’’ یا رسول اللہ! میرے پاس دْنیا کی کوئی چیز نہیں ہے ، میرے پاس جان ہے ، سو مَیں نے اْسے خْدا پر قْربان کیا !‘‘۔
 یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ مہتر جبرائیل علیہ السلام حاضر ہْوئے اور کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم! فرمانِ الٰہی یہی ہے کہ:
 ’’ہمارے علی ؓ کے پاس دْنیا کی کوئی چیز نہیں ، ہم نے دْنیا میں اٹھارہ ہزار ’’ عالم ‘‘ (جہان ) پیدا کئے ہیں اور آپ کی اور علیؓ کی رضا پر ہم نے ہر ’’عالم ‘‘ میں سے دس ہزار کو دوزخ کی آگ سے نجات بخشی ! ‘‘۔ 
’’علاّمہ اقبال، مرزا غالب کے حضور ! ‘‘
عاشق ِ رسولؓ اور مولا علیؓکے حوالے سے مولائی کہلانے والے  شاعرِ مشرق  علاّمہ اقبال ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے مرزا اسد اللہ خان غالب کے جذبات سے آگاہ تھے۔
 1924ء میں شائع ہونے والی اْن کی تصنیف ’’بانگ درا‘‘ میں علاّمہ صاحب نے ’’مرزا غالب ‘‘ کے عنوان سے جو 20 اشعار کی نظم شائع کی مَیں اْس کے صرف تین شعر پیش کر رہا ہْوں …
’’ فکر انساں پر تری ، ہستی سے ، یہ روشن ہوا !
ہے پر مرغ تخیل کی ، رسائی تا کجا !
…O…
تھا سراپا روح تو ، بزم سخن پیکر ترا !
زیب محفل بھی رہا ، محفل سے پنہاں بھی رہا !
…O…
دید تیری آنکھ کو ، اْس حسن کی منظور ہے!
بن کے سوز زندگی ، ہر شے میں جو مستور ہے!‘‘ 
…O…
شارح اقبالیات ، مولانا غلام رسول مہر نے اِن اشعار کی شرح یوں بیان کی ہے کہ ’’تیرے وجود سے اِنسانی فکر پر یہ حقیقت ظاہر ہْوئی کہ خیال کے پرندے کی اڑان کہاں تک ہوسکتی ہے؟ تو سر سے پائوں تک رْ وح تھا اور شعر کی محفل تیرا جسم تھی تو محفل کی رونق بھی بنا رہا ہے اور اِس سے چْھپا بھی رہا۔ تیری آنکھ کو اِس حسن کا یہ دیکھنا منظور ہے ، جو زندگی کی جلن اور حرارت بن کر ہر چیز میں پوشیدہ ہے! ‘‘۔
چوتھے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تیری شاعری شعر کی محفل کے لئے زینت اور رونق کا باعث تھی ، لیکن وہ محفل تیری عظمت کا صحیح اندازہ نہ کر سکی اور حقیقت اس سے پوشیدہ رہی۔ حس سے یہاں مراد حسن مطلق ہے جس کا جلوہ حقیقت دیکھنے والے کو ہر چیز میں نظر آتا ہے !‘‘۔
معزز قارئین ! نجف عراق کا ایک شہر ہے ، جہا ں حضرت علی مرتضیٰ ؓ  کا روضہ مقدس ہے۔
 اپنی ایک نظم میں علاّمہ اقبال نے فرمایا کہ … 
نجف، میرا مدینہ ہے، مدینہ ہے میرا کعبہ!
مَیں بندہ اور کا ہْوں، اْمّتِ شاہ ولایت ہْوں!
…O…
عاشق ِ رسول علاّمہ اقبال نے اپنی ایک رْباعی میں فرمایا کہ …
کبھی تنہائی ،کوہ ودمن عشق!
کبھی سوز و سرور ،انجمن عشق!
…O…
کبھی سرمایہ محراب و منبر!
کبھی مولا علیؓ خیبر شکن عشق!
(جاری ہے )

ای پیپر دی نیشن