سید احسان احمد گیلانی
امیرالمومنین سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین واقعہ فیل تقریباً چھ سال بعد طائف میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ ماجدہ اروی بنت کریز ہیں جو نبی کریمؐ کے دادا محترم سردار قریش جناب عبدالمطلب کی نواسی تھیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بچپن لڑکپن طائف میں ہی گزرا آپ عالم شباب میں ہی تجارتی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے امانت دیانت اور اچھے اخلاق کی وجہ سے تجارت میں ترقی کی منازل طے کیں. آپ کی ملاقات پیکر صدق و وفا سیدنا صدیق اکبر ؓ سے اکثر رہتی اور انکی صحبت کے اثرات آپ کی طبیعت میں نمایاں تھے جس کی واضح مثال کہ آپ نے عنفوانِ شباب میں کسی خرافات کو قریب نہ آنے دیا، آپ کی طبیعت میں شرافت سنجیدگی اور پاکیزگی کے جذبات غالب تھے دل کا آئینہ چونکہ صاف تھا طبیعت شروع سے ہی خیر کی طرف مائل تھی ہمارے آقا ومولا ؐ کی نگاہ مردم شناس جب آپ پر پڑی تو آپ نے فرمایا اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا عثمان اللہ کی جنت قبول کرو رسول اللہ کی زبان اقدس سے نکلے الفاظ سیدنا عثمان غنی کے دل پر اثر کر گئے اورکلمہ طیبہ آپ کی زبان مبارک پر جاری ہو گیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے ان دنوں مکہ میں مسلمانوں کے لئے حالات سازگار نہیں تھے اور مسلمان ہونے والے ہر شخص کو ظلم وستم کی چکی میں پیسا جا رہا تھا جو دائرہ اسلام میں داخل ہوتا اسکی زندگی اجیرن کر دی جاتی جب حضرت عثمان کے چچا حکم بن ابی العاص کو آپ کے مسلمان ہونے کا پتہ چلا تو چچا نے آپ پر ظلم وستم کی انتہا کردی مگر آپ کو دور جاہلیت پر قائل نہ کرسکا اور تنگ آکر چھوڑ دیا۔
مکہ کے کٹھن حالات میں جب زندگی گزارنا بڑا مشکل تھا حضرت عثمان رسول اکرمؐ سے اجازت لے کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے یوں آپ کو پہلے مہاجر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا. سیدنا عثمان غنی ؓ کا رنگ سفید سرخ میانہ قد دمکتا چہرہ آپ کا سینہ چوڑا بارعب داڑھی اور گیسو دارز تھے آپ بیدار مغز، روشن خیال، صداقت امانت، زہد وتقوی، حیا، ایثار، فیاضی اور خشیت الہی کے پیکر تھے نرم دل ایسے کی جب کبھی قبرستان سے گزرتے تو بے اختیار رونے لگتے آنسوؤں سے داڑھی مبارک تر ہو جاتی کم گو لیکن جب بولتے تو جچی تلی بات کرتے شرمیلے اور با حیا کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے جود وسخا کے پیکر آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ رسول اللہ نے اپنی دو صاحب زادیاں آپ کے عقد میں آئیں اور ذوالنورین کہلائے ۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں غزوہ تبوک کے موقع پر ایک ہزار اونٹ ستر گھوڑے درھم ودینار وافر مقدار میں اناج رسول اللہ پاک کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ حضرت عثمان وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جنہوں نے حضرت صدیق اکبر ؓ کے دور میں قحط کے موقع پر اپنا پورا تجارتی قافلہ مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا جنہوں نے مدینہ منورہ کے یہودی سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمان بھائیوں کے لیے وقف کر دیا۔
آپ کے دور خلافت میں اسکندریہ، لیبیا، تیونس، قبرص، خراسان.،کابل، جزیرہ رہوڈس آذربائیجان اور آرمینیا جیسے معروف علاقے اسلامی سلطنت کا حصہ بنے اور وہاں اسلامی پرچم لہرایا گیا. آپ کے دور میں جدہ میں پہلی مرتبہ ساحل پر بندرگاہ بنانے کا حکم صادر ہوا آپ کو کاتب وہی ہونے کا اعزاز حاصل رہا آپ نے قرآن پاک کے بہت سے نسخے تیار کروا کے مختلف علاقوں میں بھیجے. آپ سیدنا عمر فاروقؓ کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور امت مسلمہ کے تیسرے خلیفہ قرار پائے جنہیں زبان رسالت سے جنت کی بشارت ملی حضرت انسؓ فرماتے ہیں نبی کریم ؓ احد پہاڑ پر چڑھے آپ کے حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان تھے احد پہاڑ لرز اٹھا آپ نے فرمایا احد ٹھہرجا تمہارے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں. (بخاری) نبی کریم نے ارشاد فرمایا جو رومتہ کا کنواں کھودے گا اسکے لیے جنت ہے تو اسے حضرت عثمان غنی نے تیار کروایا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا ابوبکر میری امت میں سب زیادہ رحم دل ہیں اللہ کے لیے سخت ترین عمر ہیں سب زیادہ حیا دار عثمان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ دینے والے علی بن ابی طالبؓ ہیں..سیدنا عثمان غنی شرم وحیا کا ایسا پیکر تھے کہ فرشتے بھی آپ سے حیاکرتے ام المومنینؓ فرماتی ہیں نبی کریم ؐ کا رشاد ہے میں اس سے کیوں نہ شرماؤں جس سے فرشتے بھی شرماتے ہیں سبحان اللہ کیا شان کیا مناقب ہیں سیدنا عثمان ذوالنورین کے نبی اکرم کی پشین گوئی کے مطابق آپ کو اپنی شہادت کا یقین تھا عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ فتنہ کا دور آئیگا اور حضرت عثمان شہید کر دیے جائیں گے. آپ نے تمام نا مساعد حالات کا مقابلہ صبرو استقامت سے کیا. جنگ اور خونریزی سے اجتناب کیا. یہاں تک کئی دن آپ کو گھر محصور کر دیا گیا اور پھر آپ مظلومانہ انداز میں شہید کر دیے گئے آپ کی پاکیزہ اور قابل رشک زندگی کا مطالعہ ہر مسلمان کے مشعل راہ ہے اللہ پاک ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے…