معزز قارئین ! چاند نظر آنے کے مطابق آج یا کل ماہ محرم اْلحرام کا آغاز ہو رہا ہے۔ محرم اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے۔ اسے محرم الحرام بھی کہتے ہیں۔ اسلام سے پہلے بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے یہ احترام جاری رکھا۔ اس مہینے میں جنگ و جدل ممنوع ہے۔ اسی حرمت کی وجہ سے اسے محرم کہتے ہیں۔ اس مہینے سے نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔اس مہینے حضرت امام حسین نے اپنے 72 ساتھیوں کے ساتھ ثابت کر دِیا تھا کہ ’’ حق کی آواز کو دبابا نہیں جاسکتااور یہ کہ ’’ حْسینیت ہمیشہ ، یزیدیت پر غالب آتی ہے۔ تواریخ کے مطابق یزیدی فوج نے طاقت کے نشے میں دھت ہو کر میدان کربلا میں حضرت امام حسینؓ کو پیغام بھیجا کہ آپ اپنے خیمے پانی کے قریب سے اٹھا لیں اور راستے میں یزیدی فوج کو بٹھا دیا گیا۔امام عالی مقام نے پانی بند کرنے کا یہ ظلم شاید اس لئے برداشت کر لیا کہ کہیں بعد میں لوگ یہ نہ کہیں کہ حضرت امام حسین اور یزیدی فوج میں اصل تنازع پانی کا تھا جس پر لڑائی ہوئی ؟ آپ نے ظلم برداشت کیا اور اپنے اصحاب کے ساتھ خیموں کو پانی سے دور لے گئے۔ تپتے صحرا میں سب لوگ پانی کی پیاس سے تڑپنے لگے۔لوگوں نے پانی کا تقاضا کیا لیکن یزیدی فوج نے امام عالی مقام پر پانی بند کر دیا۔
پیغمبر انقلاب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی چند احادیث میں ’’ دریائے فرات سونے کے خزانے یا پہاڑ کا ذکر کِیا گیا ہے!‘‘۔ دْنیا بھر کے نہ صرف مسلمان بلکہ تمام با عزّت قومیں بھی ، میدان کربلا میں ، سیّد اْلشہدا ، حضرت امام حسین ؓ اور دوسرے شْہدا کے جذبات ِ ایمان و ایقان اور جرات و پا مردی کو خراج عقیدت پیش کرتی رہتی ہیں۔ معزز قارئین ! مَیںدریائے فرات ک بارے مختلف اْستاد شاعروں کے اشعار پیش کرنے سے پہلے متحدہ ہندوستان کے ایک سیاستدان اور شاعر مولانا محمد علی جوہر کا یہ شعر پیش کر رہا ہْوں۔ ملاحظہ فرمائیں …
’’ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزیدہے!
اسلام زندہ ہوتا ہے ، ہر کربلا کے بعد!
کئی "Encyclopedias"( دائرۃ المعارف) میں لکھا ہے کہ ’’ فرات بمعنی آب شیریں کوفہ کے پاس ایک دریا ہے۔بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’ بہشت کی ایک نہر کا نام بھی فرات ہے‘‘۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’ فرات ،’’ کْرد زبان ‘‘ کا لفظ ہے۔ تین سو سال قبل مسیح ایران سے شام تک پھیلے ہْوئے علاقہ میں آباد لوگوں کا وطن "Kurdistan"کہا جاتا ہے۔
’’علامہ محمد اقبال ! ‘‘
معزز قارئین ! سب سے پہلے مَیں دریائے فرات کے بارے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلّم اور مولا علی مرتضیٰ ؓکے حوالے سے مولائی علاّمہ محمد اقبال فرماتے ہیں کہ …
’’ رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک !
ترا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے لیے !‘‘
یعنی :’’ تیری کشتی توبے کنارہ سمندر کے لئے بنائی گئی۔یہ کب تک راوی،نیل اور فرات کے دریاؤں میں چکر لگاتی رہے گی!۔ اے مسلمان!۔ تونے اپنے مقصدومدعا کو چھوٹے چھوٹے خطوں میں محدود کرلیا ،حالانکہ تو وسیع مقاصد کے لئے پیدا کیا گیا تھا ، جو بہت بلند بہت وسیع ہیں۔ یہ مختصر جائزہ ہے۔
’’ خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا !
ترے فراق میں مضطر ہے موج نیل وفرات !‘‘
یعنی :’’ اے مخاطب!اگر تیری خودی زندہ ہے تو تیرا سمندر بیحد وسیع ہے۔ تیرے فراق می نیل(مصر کا مشہور دریا) اور فرات(عراق کا مشہور دریا) کی موجیں بے قرار اور بے چین ہیں۔دریا آخر میں جا کر سمندر میں گر جاتا ہے۔نیل وفرات سے مراد عام دریا ہے‘‘۔
’’ قافلہء حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں!
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات!‘‘
یعنی۔ ’’ حجاز کے قافلے کو دیکھو، اِس میں ایک بھی حْسینؓ نظر نہیں آتا ،جو استبداد اور مطلق العنافی کے خلاف بے باکانہ کھڑا ہو جائے ، اپنا سر کٹوا دے ، لیکن راہ حق سے اِدھر اْدھر نہ ہواور دوسری طرف دیکھو دجلہ اور فرات کے گیسوں میں ابھی تک پیچ و خم باقی ہیں ‘‘۔
’’حضرت میر انیس اور دوسرے اساتذہ !‘‘
اک شور تھا کہ آگ لگی کائنات میں !
خشکی میں زلزلہ تھا تلاطم فرات میں !
ذروں کی روشنی پہ ستاروں کا تھا گماں !
نہر فرات بیچ میں تھی مثل کہکشاں !
بحر ظلمات موج زن ہے!
دریاے فرات موج زن ہے !
(مومن خان مومن)
اک شور ہے کہ خاتمہ ہے کائنات کا!
بانسوں اچھل کے گرتا تھا پانی فرات کا !
(تنویر مونس)
پیاسے پھرے فرات سے لب تر کیا نہیں !
حق کی قسم میں کھاتا ہوں پانی پیا نہیں !
(اوج لکھنوی )
جینے سے ہاتھ دھوتے ہیں مرد اپنی بات پر !
اپنا تو آج مورچہ ہوگا فرات پر !
(مرزا سلامت علی دبیر)
معزز قارئین! الحمد اللہ کہ ’’ مَیں نے 1956ء میں پہلی نعت رسول مقبول لکھی تھی، جب مَیں نے میٹرک پاس کِیا تھا اور اْسکے بعد کئی نعت ہائے رسول مقبول کے علاوہ اہل بیت ، آئمہ اطہار اور اولیائے کرام کی عظمت بیان کرتے ہْوئے منقبتیں لکھیں۔ آج مَیں آپکی وساطت سے سیّد اْلشہدا ، امام عالی مقام کی خدمت میں منقبت پیش کر رہا ہْوں اِس میں، مَیں نے بھی دریائے فرات کا تذکرہ کِیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں
صاحب کردار ، فخر مِلّت ، بَیضا حسینؓ!
کار گاہِ کْن فکاں میں ، مْنفرد، یکتا حسینؓ!
سیّد اْلشہدا حسینؓ
اِن کا نصب اْلعین، تخت و تاج تو ہر گز نہ تھا!
رَزم گاہ میں ، دین کی خاطر تھے ، صف آرا حسین !
سیّد اْلشہدا حسینؓ
پانی پانی ہو رہا تھا ،دِل میں ،دریائے فرات!
کاش آ پہنچیں ، کسی صورت ، لب ِدریا حسینؓ!
سیّد اْلشہدا حسین ؓ
حضرت مولْودکعبہ کا ،قبیلہ کٹ گیا!
اِک طرف طاغْوت سارے ، اِک طرف تنہا حسینؓ!
سیّد اْلشہدا حسینؓ
مْقتدر تو جیت کر بھی ہوگیا ذِلّت مآب!
حالانکہ تھے کربلا میں ، فاتح اَعدا، حسینؓ!
سیّد اْلشہدا حسینؓ
منتظر تھے حْورْو غِلماں ، اَنبیاء اور اَولیاء !
جب درِ فردوس پہنچے ، وارث کعبہ حسینؓ!
سیّد اْلشہدا حسینؓ
جان تو دے دِی اثر ، پائی حیاتِ جاوداں!
صاحبِ دوراں بھی ہیں اور صاحبِ فَرداحسینؓ!
سیّد اْلشہدا حسینؓ
معزز قارئین! فارسی زبان کے لفظ ’’فردا ‘‘ کے معنی ہیں۔ ’ ’ آنے والا کل لیکن ،مجازاً۔ قیامت کا دِن ہے‘‘۔
…O…