آئی ایچ راشد

آئی ایچ راشد (پُورا نام ارشاد حسین راشد) سے1955ء میں اس وقت میری ملاقات ہوئی جب وہ اُردو روزنامہ ’’احسان‘‘ لاہور میں نیوز ایڈیٹر تھے ، اُس وقت اُن کے رُخ روشن پر داڑھی کا ظہور نہیں ہوا تھا۔ لاہور کا یہ قدیمی روز نامہ دم توڑ رہا تھا اور راشد صاحب کی کوشش تھی کہ وہ زندہ رہے، یہی احسان تھا جس کے دفتر میں ایسوسی اٹیڈ پریس کے ٹیلی پرنٹر کا افتتاح حضرت قائد اعظم کے ہاتھوں ہوا تھا  اور کئی نامور اخبار نویس اس کے عملہ ادارات میں شامل رہے۔ احسان کی بندش کے بعد راشد صاحب انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے رپورٹر رہے اور سول اینڈ ملٹری گزٹ کی بندش کے بعد واپڈا کے شعبہ تعلقات عامہ میں انفرمیشن آفیسر ہوگئے اور واپڈا چھوڑنے کے بعد انہوں نے پہلے پاکستان ٹائمز اورپھر ’’ڈان‘‘ سے وابستگی اختیار کرلی جب 1957ء میں ، راقم الحروف ٹوبہ ٹیک سنگھ میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کا نامہ نگار بنا تو مجھے جو ٹیلی گرافک اتھارٹی جاری کی گئی اس میں آئی ایچ راشد اور ارشاد احمد ( جو اس وقت صرف ارشاد احمد تھے ارشاد احمد حقانی بعد میں ہوئے) کے اسماء گرامی بھی شامل تھے ۔
آئی ایچ راشد کی ٹریڈ یونین سر گرمیوں کا آغاز کب ہوا اور وہ ایک عملی مسلمان اور وہ بھی بھر پور داڑھی کے ساتھ کس ماہ و سال میں ہوئے مجھے اس کا کچھ علم نہیں ہے مگر میں نے انہیں پنجاب یونین آف جرنلسٹس اور پھر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس( پی ایف یو جے) کے اجتماعات میں تقاریر کرتے سنا اور سر کاری تقریبات میں نماز کا وقت ہوجانے پر نمازکی ادائیگی کے لئے تقریب سے اُٹھ کر جاتے دیکھا تو ان کے بارے میں میری یہ رائے پختہ ہوگئی کہ وہ ایک محنتی اخبار نویس ، دلیراور جری ٹریڈ یونین لیڈر اور ایک سچے اور پکے مسلمان ہیں۔سقوط ڈھاکہ سے کچھ عرصہ قبل کنوینشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل فضل القادر چوہدری جوقومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہ چکے تھے شملہ پہاڑی کے قریب ڈیوس روڈ پُر واقع ایمبسیڈر ہوٹل میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔ اُنہوں نے ایک تحریری بیان پڑھنا شروع کیا جو رپورٹر حضرات نے پُورے صبر کے ساتھ لکھنا شروع کردیا میں بھی اس مشق میں مصروف تھا کہ اچانک راشد صاحب اپنی نشست سے اٹھے، اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا ، اُنہوں نے انگریزی میں جناب فضل القادر چوہدری کو پُکار ا اور بولے۔
Mr. Chaudhry,  We are reporters,   we are not stenographers  sorry  we cannot  take notes of such  lenthy  statement
 فضل القادر چوہدری نے راشد صاحب کے تیز و تند ریماکس سُنے اور راشد صاحب کی طرف دیکھا اور بنگلہ لہجہ کی اُردو میں کہا ’’یہ پریس کانفرنس ہم نے بُلایا ہے تم نے نہیں بُلایا۔ جب آپ پریس کانفرنس بُلائے گا تو اپنا بیان اُس میں دینا ‘‘ یہ کہہ کر فضل القادر چوہدری نے اپنا بیان دوبارہ لکھوانا شروع کردیا۔
 میں دسمبر 1974ء میں حج کے لئے گیا۔ میرے ساتھ میرے دو دوست محمد اسلم بٹ اور شیخ عبدالرشید بھی تھے مکہ مکرمہ پہنچ کر اپنا سامان معلم کے پاس رکھنے کے بعد ہم عمرہ کے لئے حرم شریف چلے گئے اور عمرہ اداکرنے کے بعد جب حرم شریف سے باہر آئے تو معلم کے گھر کا پتہ بھُول گئے اور معلم کے ٹھکانے کی جو نشانیاں ہم نے ذہن میں محفوظ کرلی تھیں وہ بالکل محو ہوگئیں۔ اسی پریشانی میں سر گرداں تھے کہ میں نے اپنے رفقاء سے کہا کہ سامنے ایک صاحب ہماری طرف آتے دکھائے دے رہے ہیں وہ میرے جاننے والے ہیں ۔ دوستوں کو اس بات پر بہت تعجب ہوا کہ مکہ مکرمہ میں اس کا کون شناسا نکل آیا جب یہ صاحب ہمارے قریب آئے تو یہ آئی ایچ راشد تھے جو ایک تبلیغی جماعت کے ساتھ حج کرنے آئے ہوئے تھے ، ان کے ہاتھ میں گرم گرم روٹیاں تھیں ، معلوم ہوا کہ اس جماعت کے ارکان نے مختلف کام آپس میں تقسیم کر رکھے ہیں۔ اور آج تنور سے روٹیاں لگوا نے کی ذمہ داری راشد صاحب کی ہے ۔ راشد صاحب نے ہماری پریشانی کا اندازہ کرکے ہمیں دعوت دی کہ ہم ان کے ساتھ ان کی رہائش گاہ چلیں اور کھانا اکٹھے کھائیں او ر اگر ہم چاہیں تو اُن کے کمرے میں حصہ دار بن جائیں جو کچھ دُورایک پہاڑی پرواقع تھا جہاں افراد کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے اور اس کے حساب سے روزانہ کا کرایہ تعداد کے حساب سے آپس میں تقسیم کرلیا جاتا ہے ان کی اس پیشکش پر میں نے انہیں بتایا کہ ہم تینوں کو کوثر نیازی صاحب نے پاکستان ہائوس میں قیام کی دعوت دے رکھی ہے اور ہم اب وہاں جانا چاہتے ہیں اگر انہیں اپنا وعدہ یاد رہا اور انہوںنے پاکستان ہائوس میں قیام کی دعوت کو تازہ کیا تو ہم معلم کے ہاں سے اپنا سامان لے کر پاکستان ہائوس چلے جائیں گے ۔ مکہ معظمہ میں معلم کی جگہ کی رہنمائی کے لئے راشد صاحب نے اپنے دو تبلیغی بھائیوں کو ہمارے ساتھ کردیا اور انہیں یہ ہدایت بھی کی کہ اگر اپنا سامان مکہ معظمہ سے پاکستان ہائوس لے جانے میں ہمیں کوئی دقت پیش آئے تو وہ سامان لے جانے میں ہماری مدد کریں، مکہ مکرمہ میں گمشدگی کے ان لمحوں میں راشد صاحب ہمارے لئے مسیحا و خضر بن گئے تھے۔ اس ملاقات نے ہمارے درمیان خلوص و محبت کے رشتوں کو از لی و ابدی بنادیا ۔ 1975ء سے 2013ء تک گذرے سالوں میں راشد صاحب کئی تقاریب میں ملے ، کئی اجتماعات میں ہم نے اکٹھے شرکت کی ، چھٹے ویج بورڈ میں وہ کارکن صحافیوں کی نمائندگی کررہے تھے اور میں اے پی این ایس کی طرف سے اخباری مالکوں کے نمائندوں میں سے ایک تھا ، وہ مجھے دیکھتے ہی میز کی دوسری طرف بیٹھے اپنے ساتھیوں کو متوجہ کرتے اور بلا تکلف ارشاد فرماتے ’’جمیل صاحب تو ہمارے نمائندے ہیں جہاں کارکنوں کے مفاد کی بات ہو گی جمیل صاحب ہماری حمایت میں کھڑے ہوں گے‘‘ واقعی ایسا ہوا بھی کہ میں نے راشد صاحب اور ان کے رفقا کی ہر مناسب بات کی تائید کی اور علاقائی اخبارات کے معاملے میں وہ میرے موقف کے ہم نوا رہے۔
آئی ایچ راشد 8 اگست2013ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ باری تعالیٰ سے اُن کا رشتہ اس قدرمضبوط تھا کہ انتقال سے ایک دن قبل انہوں نے اپنی رحلت کی خبر خود مرتب کرکے اپنے صحافی دوستوں میں بانٹی جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا سے رخصت ہونے کی تاریخ اور وقت سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔
 راشد صاحب کارکن صحافیوں کے حقوق کے بہت بڑے علمبردار تھے انہوں نے اس راہ میں بڑی صعوبتیں برداشت کیں اور جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں قید و بند کے مصائب بھی جھیلے ۔ وہ حقیقی معنوں میں ہمیشہ صحافت کی آبرو رہے۔ اخلاقی اور دینی اعتبار سے وہ اپنے ہم عصروں میں امتیازی حیثیت کے مالک تھے۔ وہ  منہاج برنا، نثار عثمانی اور حسین نقی کے دستِ راست رہے۔ روحانی طور پر انہیں کارکن صحافی ہمیشہ اپنے پیر و مرشد کا درجہ اور مقام دیتے ،اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے سر فراز فرمائے ۔حقیقت یہ ہے کہ راشد صاحب جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔

ای پیپر دی نیشن