گھنٹوں کے بعد وہ آ ئی، جھلک دکھائی اور چلتی بنی۔ لیکن کہانی میں تھرل پیدا ہو گئی فسانہ ختم نہیں ہوا اس لیے کہ انتظار کی گھڑیاں انتہائی کٹھن ہوتی ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ سخت گرمی، حبس اور جان لیوا ماحول میں تو جان بہار، جان جانا ں بھی، انتظار بھی، اس طرح نہیں کیا جا سکتا جسے ہمیں اس دشمن جاں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یقین جانیے جب وہ آ گئی تو میرا ہی نہیں سب کا چہرہ کھل اٹھا لیکن جونہی وہ الٹے پاؤں لوٹ گئی چند لمحوں بعد ہی تو ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کہ اب دم نکلا کہ کب دم نکلا، عزیزی سہیل احمد کہتے ہیں محبوب بنو، عاشق نہیں کیونکہ عشق کے امتحان ان گنت ہوتے ہیں اور ان امتحانوں میں عاشق بیچارے کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملتا جبکہ سیانے کہتے ہیں کہ عشق، محبت کیا نہیں جاتا ہو جاتا ہے اور اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ جب معشوق کو پتہ چل جائے کہ اسکے بغیر گزارا نہیں تو اس کے نخرے بڑھ جاتے ہیں۔ بس اسی چکر میں ہم سب گھن چکر بنے ہوئے ہیں۔ وہ گھنٹوں انتظار کے بعد آ تی ہے اور چلی جاتی ہے۔ جینا حرام ہو گیا لیکن اسکے بنا گزارا بھی نہیں۔ ہزاروں جتن کیے پھر بھی اس کے ناز نخرے ہی کم نہیں ہو رہے عوام سمجھتے تھے کہ روٹی، کپڑا اور مکان سے کام چل سکتا ہے مگر یہ محبت ماری جانتی ہے کہ اس کے بغیر کچھ نہیں چل سکتا۔ یعنی سارا کاروبار حیات۔ لہذا ذمہ دار اس کی محبت کا پورا پورا ہی نہیں زیادہ سے زیادہ خراج لینے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ جو روتا ہے روئے ،خوب روئے ،جس کو پریشانی ہے وہ اس کی محبت کا دم بھرنا چھوڑ کر راہ بدل لیں۔ کچھ نے اس بے رخی پر راستہ بدل بھی لیا پھر بھی وہ سکون نہیں مل سکا جس کے متلاشی تھے۔ یہ نخرہ ماری محبوبہ بجلی ہے۔ اس نے سب کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اسکی پیداوار ہماری ضرورت کے مطابق ہے لیکن چور بازاری، کنڈا سسٹم اور طاقتوروں نے لوٹ مار کر کے سارا دباؤ عوام کے سر ڈال دیا۔ ملک میں معاشی بحران ہے، ایک دوسرے پر الزامات کی جنگ جاری ہے، معاملات کی بہتری کیلئے آ ئی۔ ایم۔ ایف کی طرف دیکھتے ہیں جوابا وہ اپنی شرائط منوا کر قرضے کی واپسی کیلئے بلوں کا راستہ دکھاتا ہے کیونکہ وہ یہ راز جانتا ہے کہ وصولی کا یہی راستہ محفوظ ہے ور نہ ترقی پذیر ملک قرضہ واپس کر ہی نہیں سکیں گے۔ دوسری جانب صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار راشد محمود نے اپنے 47 ہزار بل پر ایسا ویڈیو ری ایکشن دیا کہ خبروں کا موضوع بن گیا۔ ایسے میں راولپنڈی بوائے شیخ رشید بھی اپنا بل لے کر منظر عام پر آ گئے۔ ان کا دعوی ہے کہ نہ بیوی، نہ بچے، ناشتہ ریڑھی سے، چلے کے بعد دوپہر کو چولہا بھی نہیں جلاتا، اے سی کی سہولت بھی نہیں پھر بھی گیس کا بل ایک لاکھ اور بجلی کا بل ایک لاکھ 60 ہزار روپے، خدا کیلئے غریب کو مرنے سے بچائیں۔ اب غیر جانبدارانہ جائزہ لیں اداکار، صداکار راشد محمود اپنی 74 سالہ زندگی کے اس حصے میں عارضہ قلب ،فالج اور دیگر بیماریوں کے سے نبرد آ زما ہیں۔ ان کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ دوسری جانب گیٹ نمبر چار کی فخریہ پیشکش شیخ رشید احمد ایک درجن سے زیادہ مرتبہ وفاقی وزیر رہنے والے ایسے غریب آ دمی ہیں جو مجبورا ناشتہ ریڑھی سے کرتے اور سگار غیر ملکی پیتے ہیں۔ دونوں غریبوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ بچاؤ، بچاؤ، ہم مارے گئے؟ عوام اور جماعت اسلامی سمیت مختلف سیاسی ‘سماجی کارکن اور تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ حکومت اخراجات کم کرکے عوام دشمن بجٹ پر نظر ثانی کرے۔ وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے دعوے غلط ہیں، کابینہ نہ تنخواہ لے رہی ہے نہ ہی مراعات۔ لیکن صورتحال کچھ یوں ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سات چیزیں عوام کی پہنچ سے اس طرح انتہائی دور ہو گئی ہیں جیسے بچوں کی پہنچ سے ادویات کو دور رکھا جاتا ہے۔ بجلی، گیس، گاڑی، پٹرول، اپنا گھر، اور سفر جبکہ یہی سب کچھ حکمرانوں، بیوروکریٹس، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور بہت سے صاحب حیثیت کے لیے فری ہے۔ ایسے میں تو دونوں غریب راشد محمود اور شیخ رشید کے لیے گنجائش تو نہیں نکلے گی۔ پھر عام پاکستانی جس کی پہلی اور آ خری منزل پاکستان ہے اس کا کیا بنے گا ؟ ہمارے حکمرانوں نے آ ئی ،پی، پیز معاہدے بجلی بحران سے نجات کیلئے نہ صرف کیے تھے بلکہ معاہدے کی رو سے انہیں بجلی بنائے بغیر بھی قومی خزانے سے خطیر رقم کی ادائیگی کی گئی اور کی جا رہی ہے۔ ایٹمی پاکستان کے سائنس دانوں نے ایک سے زیادہ بار مشورے دیے، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان تو ہم سے کیا ،دنیا سے روٹھ گئے لیکن مبارک ثمر مند اور دوسرے اہم ترین سائنس دان موجود ہیں۔ پھر بھی ایوان میں کوئی نہیں پوچھتا کہ معاملات کو ان کی حقیقی بنیاد پر حل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ ہمارے باصلاحیت سائنسدانوں میں ایسی شخصیات اب بھی موجود ہیں جن کا کہنا ہے کہ اللہ نے پاکستان کو لامحدود قدرتی خزانوں سے نوازا ہے ‘سزا ہمیں صرف اور صرف کفران نعمت کی مل رہی ہے۔ ہمارے گلگت بلتستان میں اس قدر پانی اور خوبصورت گزر گا ہیں موجود ھیں جن کی منصوبہ بندی سے ہم اپنی ضرورت سے پانچ گنا زیادہ بجلی با آسانی بنا سکتے ہیں ہمارا ساحل سمندر اور نخلستان ایسے ہیں جہاں معمولی سی کوشش اور بیرونی سرمایہ کاری سے ہوا کی مدد سے بھی ضرورت سے زیادہ بجلی حاصل کر سکتے ہیں لیکن ذمہ دار اپنے وسائل پر توجہ نہیں دے رہے۔ مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب ہم عوام کو گمراہ کرنے کے لیے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں عوامی ٹیکس سے عوامی ریلیف نہیں ملتا۔ یہاں ٹیکس عیاشی پر خرچ کر لیا جاتا ہے تصویر کا ایک روپ دکھایا جاتا ہے کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا واضح فرق کیا ہے؟موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کے دور میں قومی یکجہتی کی بے حد ضرورت ہے۔ حکومت اور عوام کو اس بات کا اندازہ لگانا ہوگا کہ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ اگر ایک ہاتھ کسی وجہ سے ناکارہ ہو گیا تو بات نہیں بنے گی۔ لیکن عوام کو اکسانے والے کو قومی یکجہتی، پاکستانی استحکام اور سلامتی کی بجائے صرف ہائے ہائے کا درس دے کر ہمیں انتشار میں مبتلا کرنے کے درپئے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے اتحاد کو انتشار میں تبدیل کرنے کے لیے کبھی سری لنکا اور اب کینیا کے حالات سے ڈرایا جا رہا ہے تاکہ ہم کسی نہ کسی طرح آپس میں دست و گریباں ہوتے رہیں حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ مسائل کا یہ حل ہرگز نہیں۔افہام و تفہیم سے کام لینا پڑے گا اور مستقبل کے لیے جامع منصوبہ بندی بھی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم انہیں پارلیمنٹ سے بھرپور مدد حاصل کرنی چاہیے اور تمام سیاست دانوں کو خواہ وہ پارلیمنٹ میں موجود ہیں یا پارلیمنٹ سے باہر۔ انہیں اجتماعی مفاد کے لیے ایک میز پر بٹھا کر فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ یہ اواز بچاؤ بچاؤ ہم مارے گئے ایسی بڑھے گی کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہو جائے گا۔ ہمارے وسائل محدود صحیح لیکن اتنے ضرور ہیں کہ ہم مثبت منصوبہ بندی سے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں پیغام ایک ہی ہے کہ پاکستانی پاکستانی بنو اور پاکستانی بن کر ہی سوچو کیونکہ ہماری تمہاری حکمرانوں اور اپوزیشن سب کی شناخت پہچان صرف اور صرف پاکستان ھے۔ ھمیں یاد رکھنا ھو گا کہ موج ھے دریا میں۔ بیرون دریا کچھ نہیں،
٭…٭…٭