سرکاری افسر بڑے بنگلے اور گاڑی کے لیے ٹرانسفر کراتے ہیں: چیف سیکرٹری سندھ۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہمارے سرکاری افسران کی کرسی پر بیٹھتے ہی پہلی نظر اپنے گریڈ کے مطابق اچھی سرکاری رہائشگاہ اور گاڑی کے لیے مچلتی ہے۔ وہ سفارش اور دیگر راستوں سے اس بات کی طرف کوشاں رہتے ہیں کہ انہیں اچھا گھر اور گاڑی ملے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ جب ریٹائر ہو کر ان سے کہا جائے کہ گھر خالی کر یں اور گاڑی واپس دیں تو ان کا سانس بند ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جی او آر یا دیگر سرکاری کالونیوں میں بے شمار ریٹائرڈ افسران سرکاری گھروں پر قابض ہیں۔ نہ گھر خالی کرتے ہیں نہ گاڑی واپس۔ بلکہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو سرکاری نوکری دلوا کر یہ سہولتیں ان کے نام کروائیں۔ اس حوالے سے کئی مرتبہ شور بھی ہوا ہے۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا ہی نکلتا ہے۔ نجانے کیوں حکومت بزور طاقت یہ کام کیوں نہیں کرتی۔ بات عدالتوں میں جاتی ہے۔ معاملہ لٹک جاتا ہے جبکہ یہ کام سرکاری رولز کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس سے بھی بہتر ہے کہ صرف اعلیٰ کارکردگی والے سرکاری افسران کو ہی عمدہ گھر اور گاڑی دی جائے۔ نکمے اور کام چور افسران کو تو دور دراز پسماندہ علاقوں میں کام سیکھنے کے لیے بھیجا جائے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہر افسر کو اس کے آبائی علاقے میں کام کا پیریڈ دیا جائے تاکہ دیہی علاقوں میں بھی کام ہوں صرف بڑے شہروں اور سرکاری کالونیوں میں رہنے کی خواہش سب کو ہوتی ہے۔ ویسے یہ شاہانہ گھر اور گاڑی والا کلچر اب ختم کر کے چھوٹی گاڑی اور چھوٹے گھر کا کلچر اپنانے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭
کوئٹہ میں بلاول کی پریس کانفرنس یہ کر دیں گے، یہ ہو گا کے دعوئوں تک محدود۔
اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کے خلاف ان کی اپنی پارٹی کے اندر مخالفت زور پکڑنے پر خود بلاول کو بلوچستان آنا پڑا۔ دورے کے اختتام پر بلاول نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ یہ دورہ کامیاب رہااور وزیر اعلی تبدیل نہیں ہو گا۔ اب معلوم نہیں کوئٹہ میں سرکاری وفود سے یا پارٹی عہدیداران سے مل کر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ دورہ بلوچستان کامیاب رہا۔ کیا کوئٹہ کا مطلب بلوچستان ہے۔ اگر اپنی جماعت والوں سے ملاقاتیں کامیابی ہے تو اس کے مطابق ان کا دورہ کوئٹہ کامیاب رہا ہو گا اور وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کے خلاف اٹھنے والا شور دب گیا۔ اب معلوم نہیں یہ خاموشی کہیں طوفان سے پہلے والی خاموشی نہ بن جائے۔ پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان میں ہسپتال بنانے، پنکابس چلانے، سیلاب متاثرین کے گھر مکمل کرنے اور صحت و تعلیم کے منصوبے مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی دعوے کئے۔ یہ وہی
تیرے وعدے پر جیئے تو اے جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
انہوں نے سندھ کی تعمیر و ترقی اور خوشحال کی باتیں سنا سنا کر بلوچستان والوں کے زخموں پر نمک پاشی کی۔ ورنہ شہری علاقوں سے ہٹ کے سندھ میں بھی جو صورتحال ہے اس سے سب لوگ واقف ہیں۔ ابھی تک تو سندھ کے سیلاب متاثرین کے گھر نہیں بنے۔تاہم ملاقات اور عوامی نمائندوں کے علاوہ پریس والوں سے ان کی ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور انہوں نے تمام مسائل اور مشکلات کی ذمہ داری نہایت خوش اسلوبی سے حکومت پر ڈال کر اپنا دامن بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس میں وہ کامیاب بھی نظر آئے۔ یوں ہینگ لگی نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا آیا تاہم انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کو مکمل رد کر کے معاملہ برابر کر دیا۔
٭٭٭٭٭
ہالینڈ کے وزیر اعظم سبکدوشی کے بعد سائیکل پر گھر روانہ۔
خدا جانے یہ اسلامی طرز حکومت ہمارے بجائے غیر مسلم حکمرانوں نے کیسے اپنا یا ہے۔ 14 سال سے ہالینڈ کی وزارت عظمیٰ پر فائز مارک روٹے دائیں بازو کی جماعت کے الیکشن جیتنے کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے اور وزیر اعظم ہائوس سے نکلے تو نہ گارڈ آف آنر تھا نہ کوئی عوامی جلوس یا خاص تقریب نہ گاڑیوں کے قافلے تھے، نہ کوئی نمائشی اقدامات۔ انہوں نے دروازے پر دو ساتھیوں کو الوداع کہا، اپنی سائیکل نکال کر اس پر سوار ہوئے اور اپنے گھر روانہ ہوگئے۔ جی ہاں بائسیکل پر۔ یہ ایک ترقی یافتہ ملک کا کلچر ہے اور ہمارے ہاں تو پولیس کا ایس ایچ او یا کوئی بلدیاتی چیئرمین ہو۔ وہ بھی جب نکلتا ہے تو شاہی بارات کی طرح اس کا سکواڈ آگے پیچھے ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے ملک ترقء معکوس کی جانب گامزن ہے۔ نمائشی اقدامات اور تقریبات میں کروفر سے شرکت کر کے آنے اور جانے والے اتنا ہی خیال اپنے ملک کا رکھیں تو شاید ہمارے ملک کی قسمت بھی سنور جائے۔ ہمارے چند رہنمائوں نے سائیکل چلا کر بڑی فلمیں چلائیں مگر ایک ہی دن میں وہ شوق پورا ہو گیا اور نشہ اترا تو پھر وہی سکواڈ وہی گاڑیوں کے قافلے ان کی ضرورت بن گئے اور یہ قصے ماضی کا حصہ بن گئے۔ چین کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہاں ہر خاص و عام امیر و غریب 40 برس سے زیادہ صرف سائیکلوں پر ہی گزارہ کرتے رہے اور جب ترقی کا زینہ طے ہوا تو آج وہاں گاڑیوں کی ریل پیل ہے۔ ہمارے ہاں گاڑیوں کی ریل پیل تو ہے مگر ترقی کا ایک آدھ زینہ بھی ہم ابھی تک طے نہیں کر سکے اور شہروں کی تو بات چھوڑیں دیہات سے بھی اس سائیکل کی چھٹی ہو گئی ہے۔ جبکہ دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی سائیکل استعمال ہوتی ہے اور لوگ چلاتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔
٭٭٭٭٭
پی ٹی آئی کے بانی کی بھوک ہڑتال کی دھمکی۔
کپتان کو شکوہ ہے کہ جیل میں ان کے ساتھ نارواسلوک برتا جا رہا ہے۔ شدید گرمی کے موسم میں انہیں ایک چکی میں بند رکھا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو بہت بری بات ہے۔ ایک طرف جیل میں ان کی بیرک میں سازو سامان کی بیشمار تصاویر دکھائی جاتی ہیں تو کیا وہ جھوٹی ہیں۔ ان سے ملاقات کرنے والے کارکنوں اور وکلا نے ایسی کوئی شکایت درج کیوں نہیں کرائی۔ انہو ں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ جلد پارٹی عہدیداروں اور وکلا سے مشاورت کے بعد بھوک ہڑتال کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ اس سے پہلے کہ وہ ایسا کوئی اعلان کریں جیل حکام ازخود ان کی شکایات کا جائزہ لیں۔ ویسے بھی ہماری جیل انتظامیہ اتنی بے خبر ہے کہ خود بانی پی ٹی آئی نے طنز کیا ہے کہ جیل حکام پریشان ہیں، میرے پاس حمود الرحمان کمشن رپورٹ کیسے آگئی۔ یہ تو واقعی حیرانگی والی بات ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہیں چھپ چھپا کے نجانے کیا کچھ ملتا ہو گا اور جیل حکام سسی کی طرح بے خبر سوئے پڑے ہوئے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی والے اپنے بانی کی رہائی کے لیے تحریک چلانے کا بھی اعلان کرتے پھر رہے ہیں۔ اب اگر اس کے ساتھ ہی بھوک ہڑتال کا بھی پروگرام بن گیا تو حکام اندازہ کر لیں پھر کیا ہو گا۔ یہ تو گرمی کی وجہ سے اس وقت سیاسی جذبات ذرا ٹھنڈے پڑے ہیں۔ ورنہ پی ٹی آئی والے تو کب سے دعوت مبازرت دے رہے ہیں مگر شاید پارٹی کے اندرونی، اختلافات بھی آڑے آ رہے ہیں۔ پہلے اس پر قابو پانے کی کوشش ہو گی پھر تحریک کا معاملہ طے پائے گا اور بھوک ہڑتال کا بھی۔ ویسے حیرت کی بات ہے یہ بھوک ھڑتال نجانے کیوں مشاورت کے بعد ہو گی۔
٭٭٭٭٭
اتوار‘ ذوالحج 1445ھ ‘ 7 جولائی 2024ء
Jul 07, 2024