برطانیہ میں لیبر پارٹی کی شاندار جیت

  برطانیہ میں کنزرویٹو کا 14 سالہ دور ختم ہوگیا جہاں قبل ازوقت ہونے والے عام انتخابات میں لیبر پارٹی نے فتح حاصل کرلی ہے جس کے بعد سر کیئر سٹارمر نئے وزیراعظم ہونگے۔ لیبر پارٹی کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک نے اپنی شکست تسلیم کر کے جیتنے والی پارٹی کو مبارکباد دی ہے۔
بھارتی نژاد برطانوی وزیراعظم رشی سونک کو اپنی کارکردگی پر اتنا یقین تھا کہ انہوں نے قبل از وقت انتخابات کروا دیئے۔انہوں نے عوامی موڈ کا اندازہ بالکل غلط لگایا۔برطانیہ کی لیڈر شپ کا عالمی سطح پر غیر جانبدار ہونے کا عمومی تاثر پایا جاتا ہے لیکن رشی سونک بطور وزیراعظم غیر جانبدار نہیں رہ سکے تھے۔ برطانیہ میں وہ مودی کی پالیسیوں پر عمل کرتے نظر آئے۔ انہوں نے انڈیا جیسا ماحول بنا رکھا تھا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری پائی جا رہی تھی۔انکی وزارت عظمی میں اسلامو فوبیا کو فروغ مل رہا تھا۔اسی وجہ سے برطانیہ میں موجود مسلمانوں نے سونک کو ووٹ نہیں دیا۔مودی کی طرح رشی سونک اسرائیل کی حمایت میں کھڑے تھے۔امریکہ برطانیہ سمیت دنیا بھر میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔مغربی ممالک کے لوگ انسانی حقوق کے حوالے سے زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں۔وہ اسرائیل کے مظالم کی کھل کر مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت کررہے ہیں جبکہ سونک اسرائیل کی حمایت میں امریکہ کی چاپلوسی کرتے نظر آئے جسے برطانوی رائے عامہ نے بادی النظر میں مسترد کر دیا جو کنزرویٹو پارٹی کی بدترین شکست اور لیبر پارٹی کی تاریخی فتح کا باعث بنی۔ البتہ سونک نے جمہوری رویوں کے مطابق اپنی شکست تسلیم کر لی اور لیبر پارٹی کو کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔لیبر پارٹی کے نامزد وزیراعظم کیئر سٹارمر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم نے سیاست کو خدمت میں بدلنا ہے ملک کو بحرانوں سے نکالیں گے اس کے ساتھ ہی ان کی طرف سے برطانوی عوام کی امنگوں، جو احتجاج اور مظاہروں کے دوران سامنے آ چکی ہیں،کی ترجمانی کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ نئی برطانوی حکومت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات پہلے کی طرح گرم جوشی پر استوار ہو سکیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...