بل بجلی کی وجہ سے مسجد بند ہو گئی 

 گزشتہ دو ہفتوں سے بجلی کے بلوں پر حکومتی جگا گیری اور عوام کی چیخ و پکار کے حوالہ سے کالم لکھتے آرہے ہیں آج کا تیسرا ہفتہ وار کالم پھر اسی حوالے سے ہے دن بدن حکومتی نمائندوں اور حکومت کی بدمعاشیاں بڑھتی جا رہی ہیں یہاں پر میں مانتا ہوں کہ ہمارے غریبوں کے ساتھ ہونے والی اس جگا گیری پر ان غریبوں کو اپنا حق لینا نہیں آرہا اور ہر حکومت ہر دور میں یہی چاہتی رہی ہے کہ ایسی ہی عوام ہونی چاہیے جس کو ہم ہر لحاظ سے لوٹتے رہیں اور یہ سیدھی سادھی عوام اس طرح چپ چاپ ظلم سہتی رہے چلیں اس بات پر بھی ذرا تھوڑا سا غور کر لیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے بالکل کچھ ایسا ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے اور اب یہ عوام ظلم سہنے اور آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ظلم کی چکی میں پسنے کی عادی ہو چکی ہے۔ اور ایسے ہی ظلموں کی وجہ سے اب یہ اپنا حق لینے کا طریقہ بھی بھول چکی ہے کہ حق لینا کس طرح سے ہے جس کا اندازہ آپ کو ہو گیا ہوگا کہ اس سے پہلے بھی کئی بار بجلی کے بھاری ناجائز ٹیکسز سے تنگ آئی عوام نے احتجاج کے دوران بلوں کو بھی جلایا گیا اور خوب واویلا کیا گیا اور پھر حالیہ گزشتہ ہفتے کو پھر احتجاج کیا گیا مگر افسوس کے حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی ایسے حالات میں صرف یہی کہوں گا کہ پرامن احتجاج اس وقت تک جاری رکھیں جب تک آپ کو اپنا حق نہیں مل جاتا سڑکوں پر دھرنے دیں پیہ جام کر کے رکھ دیں پھر ان کی سوچ بدلے گی جو ان خیالوں میں مست ہے کہ عوام ایسی ہی ہونی چاہیے جسے جب چاہیں جس طرح چاہیں بدو بنا لیں۔ مگر ایک بات یاد رکھو وہ ظالم کی رسی کو دراز ضرور کرتا ہے مگر ظالم اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ ان مظلوموں کی بد دعاؤں ضرور رنگ لائیں گی اسی لیے کہتا ہوں کہ اس برے وقت سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ سارے کا سارا کھیل برباد ہو جائے۔

  لہذا بات ہو رہی تھی بجلی کے بھاری ٹیکسز اور زیادہ یونٹ ریٹ کی اس پر سب سے پہلے ہم کریں گے بات ایک وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس احمد خان لغاری جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے جنہیں ماہ جون کا بجلی کا بل صرف 124 روپے کا موصول ہوا ہے جس کی آخری تاریخ چار جولائی 2024 ہے اور ساتھ ہی میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان کے گھر کا بجلی کا میٹر جو گزشتہ چھ ماہ سے خراب پڑا ہے۔ اور نہ ہی گزشتہ چھ ماہ سے ان کا کوئی بل جمع ہوا ہیاور ان کے گھر کی بجلی کی سپلائی بدستور جاری ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس پر نہ تو وزیراعظم اور نہ ہی صدر نے کوئی نوٹس لیا ہے جبکہ ان کے بجلی کے بل کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے اور مذکورہ وزیر صاحب جن کا تعلق مسلم لیگ سے ہے۔ جبکہ ان کا دوسرا رخ کچھ اس طرح سے ہے آپ نے 17 جون کو زبردست بھاشن دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود اور پبلک سروسز کی بہتری  کیلئے کام کرتی ہے۔ عوامی مسائل کا بروقت حل اولین ترجیح رہا ہے۔ ملک اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے ملک کی ترقی کیلئے ملکر کام کرنا ہوگا۔ اب اس بات سے آپ اندازہ کر لیں کہ ان لوگوں کی تصویر کا رخ ایک نہیں دو دو ہیں اور یہ بیچاری عوام ایسے حکومتی نمائندوں سے اپنے بجلی کے بلوں کے اوپر لگائے گئے ناجائز ٹیکسز اور یونٹس کے بڑھائے ہوئے ریٹس کو ختم کروانے کے لیے ان کے آگے واویلا کر رہے ہیں اب اندازہ کریں کہ یہ لوگ کسی کو کیا دے سکتے ہیں جو خود ڈائریکٹ بجلی استعمال کر رہے ہیں۔  گزشتہ دنوں انہی کے علاقہ ڈیرہ غازی خان کی ایک سب ڈویڑن میں ایس ڈی او کی عوام کے ہاتھوں زبردست پٹائی ہوئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ان حکمرانوں اور محکمہ واپڈا کے ستائے ہوئے عوام نے ایس ڈی او کی خوب چھترول کی کتنے دکھ کی بات ہے کہ اس واقعہ سے کسی بھی حکومتی نمائندے اور حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑا
 ایک کیلے بیچنے والے ریڑھی بان کے ہاتھوں میں پکڑا ہوا بجلی کا 60 ہزار روپے کے بل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ شخص چیخ و پکار کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اس سے قبل میں نے رکشہ فروخت کر کے پچھلے مہینے کا بل پے کیا مگر اب تو میرے پاس مزید بیچنے کے لیے کچھ نہیں ہے حکمرانوں آپ کا بیڑا غرق ہو جائے تم نے ہمارا غریبوں کا سکھ چھینا ہے اللہ تمہارا سکھ چھین لے خدارا غریبوں پر اتنا ظلم نہ کریں۔
  لاہور کے حلقہ پی پی 152 اور این اے حلقہ 119 کے علاقہ کی ایک مسجد کے امام نے مسجد کو اس وقت تالے لگا دیے جب انہیں 66 ہزار روپے کا بجلی کا بل ملا جو ان سے ادا نہیں ہو سکا لہذا مجبوراً مسجد کو تالا لگانا پڑا کیسا وقت آگیا ہے کہ اب ان ظالموں کے ظلم کی وجہ سے اس بھاری بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے مسجدوں کو بھی تالے لگنا شروع ہو گئے ہیں شاید ایسے ہی وقت کے لیے ساغر صدیقی نے کہا تھا 
 جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن