کس طرح ایک کشتگان خواب آجاتی ہے نیند…؟

اپنی قومی ایئرلائن کے جہاز میں آکر بیٹھی تو احساس ہوا کہ جیسے پاکستان میں آگئی ہوں۔ ویسے تو جب آپ جے ایف کے سے اپنے ڈیپارچر لائونج کے اندر آجائیں تو آپ کو وہیں پہ پاکستان نظر آنے لگتا ہے۔ لاٹھی ٹیکتے ہوئے ضعیف باپ‘ وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی تھکی تھکی مائیں… پہلے نومولود کو گودی میں لٹکائے نوجوان دلہنیں… شرارتیں کرتے ہوئے بچے … عزیز و اقارب سے مل کر آنے والے خواتین و حضرات کی سج دھج… تفریحی سفر پر نکلی ہوئی بیگمات اور ان کے تھیلے… سالوں بعد گھرجاکر بوڑھے والدین کو ملنے کی لگن میں ورکنگ کلاس کے لوگ… برقعے… حجاب… چادریں… جینز‘ جوگرز سینڈل‘ گرگابی‘ شلوار‘ ساڑھی‘ چادر… سب کچھ اندر نظر آنے لگتا ہے اور ایک بے ہنگم شور بھی… جو بچوں نے ادھر ادھر بھاگ کر مچا رکھا ہوتا ہے۔ پھر بھی وطن واپس لوٹ جانے کی روشنی ہر چہرے پر ہوتی ہے…
میں نے سیٹ بیلٹ باندھتے ہی اردو کا اخبار مانگا۔ اخبار کھولتے ہی پورے کا پورا ماحول سامنے آگیا۔ ویسی ہی خبریں ویسے ہی حاشیئے‘… بیانات میں وہی بناوٹ‘ منصوبوں میں وہی من مانیاں‘ وعدوں میں وہی کہہ مکرنیاں‘ سکینڈل‘ وزیروں کے‘ مشیروں کے… کرپشن ادھر بھی ادھر بھی…
تو کیا چند ہفتوں میں دنیا بدل جاتی ہے…
تھوڑے ہی دنوں میں اس تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکلنے لگتی ہے… جو تبدیلی لوگ مانگتے ہیں۔
اب ہمیں انتخابات کی نہیں الہ دین کے ایک چراغ کی ضرورت ہے…
پھر بھی اتنے دنوں کے بعد ایک قومی اردو اخبار دیکھا تھا۔ صفحہ اول سے لیکر صفحہ آخر تک سارے کا سارا پڑھا‘ جیسے کافی دنوں کے بعد ماں اپنے بچے کو لپٹا لپٹا کے اداسی دور کرتی ہے۔
ایک چھوٹی سی خبر تھی مگر عجیب لگی۔ چیف جسٹس نے فحش گانوں کا ازخود نوٹس لے لیا۔ شکر ہے کسی کی توجہ اس طرف تو گئی…
1986ء میں مجھے فلم سنسر بورڈ کا ممبر بنایا گیا۔ میں ہر فحش اور غیراخلاقی سین‘ ڈائیلاگ اور فحش گیت پر نکتہ اعتراض اٹھاتی تھی۔ فلم ریجیکٹ کر دیتی تھی۔ سین بدلوا دیتی… گانے کا مکھڑا بدلنے پر زور دیتی تھی مگر میری حیرت کی انتہا نہ ہوتی کہ باقی ارکان کی رائے سے فلم ریلیز ہوجاتی۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ اس قسم کے لچر اور ذومعنی پنجابی گیت بسوں اور ٹرالیوں میں بجائے جاتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں میں ہماری بارہ تیرہ سالہ بچیاں اور لڑکے بھی سنتے ہیں۔ جس کا منفی اثر ہوتا ہے۔ بسوں کے اندر غیراخلاقی واقعات رونما ہونے لگتے ہیں بلکہ ایسے گیت تو ریڈیو پر بھی بین ہوجانے چاہئیں مگر اس زمانے میں ایک دو ارکان کے سوا کوئی میرا ساتھ نہیں دیتا تھا۔ تفریح کی ہر بندے کو ضرورت ہوتی ہے۔ طنز و مزاح جگت بازی سب درست مگر ان میں اخلاق جھگڑنے والے عناصر نہیں ہونے چاہئیں۔ وہ اسی کی دہائی میں ہمارے ہاں جو پنجابی فلمیں بن رہی تھیں۔ ان میں خون خرابا اور قتل و غارت بہت دکھایا جاتا تھا۔ بات بات میں چھرا چل جاتا تھا۔ میں ان سے بحث کرتی تھی کہ فلم بہت اثر آفریں میڈیا ہے۔ اس میں انسانی خون کی ارزانی نہ دکھایا کریں۔ ان باتوں کے نتائج دوررس ہوتے ہیں۔ ایک ایسی نسل پیدا ہوجاتی ہے جس کیلئے انسان کی زندگی کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ پھر وہ دوسروں کی آلہ کار بن جاتی ہے… لیکن وہ کہتے تھے فلم تو بس فلم ہوتی ہے… (اور جو خودکش حملوں میں ہورہا ہے وہ کیا ہے) انہی دنوں ایک پروڈیوسر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ ایسے اعتراضات کرکے فلم رکوایا نہ کریں اور ان لوگوں کی بددعا نہ لیں۔
میں نے پوچھا کن لوگوں کی…؟ جو فلمیں بناتے ہیں‘ وہ بولے…
میں ہنس پڑی۔ میں نے کہا جو لوگ پیسہ کمانے کی خاطر معاشرے کی اخلاقی قدریں دائو پر لگا رہے ہیں۔ کیا ان کی بھی بددعا لگتی ہے… جی ہاں… ان سب نے مل کر بعد از بسیار کوشش مجھے بورڈ سے آئوٹ کرا دیا۔ اب یہ کون اٹھا ہے فحش گانوں کی خبر لینے والا…؟ پہلے والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا ؎
دنیا کو بدلنے اٹھے تھے
دنیا نے بدل ڈالا کہ نہیں؟
افوہ… ایک خبر نے تو میرے ہوش اڑا دیئے… یہ لاہور میں کیا ہوا… اتنا شدید دھماکہ… اتنے انسانوں کا لہو… دن دہاڑے قیامت… یوں لگا سارے اخبار پر کرچیاں پھیل گئیں… فضاء دھندلا گئی۔ وہ سب گھر سے مرنے کیلئے نہیں نکلے تھے۔ وہ سب کسی کی جان تھے۔ کسی کا دل تھے۔ کسی کا حال تھے۔ کسی کا مستقبل تھے۔ کسی کے گھر کا چراغ تھے۔ کسی کے سینے کا داغ تھے۔ وہ اپنے ہی ملک میں تھے۔ اپنی ہی سڑکوں پر تھے۔ اپنے ہی دفتروں میں تھے… وہ اب ڈھونڈے سے نہیں ملیں گے۔ ماں راہیں دیکھتی رہ جائیں گی۔ بیویاں چوڑیاں توڑتی رہی جائیں گی… بچے بابا پکارتے رہیں گے… کون ان کو موڑ لائے…؟ کس آفت میں پھنس گئے ہیں ہم… کس کی تدبیر ہماری تقدیر سے لڑ رہی ہے۔ دہشت گرد پکڑے جانے کی نوید تو ملتی ہے… مگر ان کا انجام نظر نہیں آتا۔
شاید آج سے پہلے کبھی ایک منظم اور مربوط قوم کی ضرورت اس طرح محسوس نہیں ہوئی تھی۔ جیسے اب محسوس ہورہی ہے اور یہ کام سیاسی پارٹیوں کو انجام دینا پڑے گا…
آپ کافی لیں گے…؟ ایئر ہوسٹس نے جیسے میرے کان میں سرگوشی کی… نہیں… میں نے لکھتے لکھتے سر اٹھایا… ارے اتنی دیر ہوگئی… جہاز سوئے منزل روانہ بھی ہوگیا… میں کھڑی ہوگئی… پائوں کو جوتوں سے آزاد کیا… پائوں کو ہمیشہ زمین کی طلب ہوتی ہے… خلا میں نہیں ٹھہر سکتے…
میں نے سارے جہاز کا ننگے پائوں ایک چکر لگایا۔ جہاز کی نیم تاریک بتیوں میں تقریباً سارے مسافر اطمینان سے سو رہے تھے کیونکہ وہ اپنے گھر جارہے تھے۔ اپنے وطن جارہے تھے۔ کچھ سیٹیں کھول کر سوئے تھے… کچھ گٹھڑی کی صورت میں‘ کچھ لٹکے ہوئے۔ کچھ سیدھے… کچھ الٹے… آہ نیند سے ظالم بھی کوئی شہ ہے… میرے ساتھ جو مسافر بیٹھا تھا۔ وہ محو خواب نہیں محو خراٹے تھا۔ اف اس قدر دہشت ناک اور ہوش ربا خراٹے… ساتھ والی سیٹ پر اس کی بیوی منہ سر ڈھک کے بے ہوش سوئی تھی۔ غالباً اس نے نیند کی گولی کھائی ہوگی۔ کم از کم جہاز کے اندر تو خراٹے لینے والوں پر ٹیکس لگایا جائے۔ شاید اس طرح خسارے میں جانے والی ایئر لائن کو فائدہ ہو…
میں گھوم پھر رہی تھی اور گن رہی تھی کتنے لوگ خراٹے لے رہے ہیں کہ ایئر ہوسٹس پھر آدھمکی… آپ کو نیند نہیں آرہی…؟ کچھ کھانے پینے کو لائوں…؟ میں انکار میں سر ہلا کے ہنس پڑی تو اس نے ایک نوٹ بک آگے کردی۔ میں آپ کے نائول شوق سے پڑھتی ہوں۔ پلیز آٹو گراف دے دیں۔ میں سیٹ پر بیٹھ گئی ایک ٹھنڈی سانس لی اور لکھنا شروع کیا؎
بزم جاناں سے جو اٹھتا ہوں تو سو جاتے ہیں پائوں
دفعتاً آنکھوں سے پائوں میں اتر آتی ہے نیند!
کروٹیں لیتے ہی لیتے رات ہوتی ہے تمام
کس طرح ایک کشتگان خواب آجاتی ہے نیند

ای پیپر دی نیشن