چيف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی ميں تين رکنی بینچ نے اين آئی سی ايل اسکينڈل کيس کی سماعت کی، سيکرٹری تجارت کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ سيکرٹری تجارت کو کل بلائيں ورنہ گرفتاری کا حکم ديں گے، عدالت نے ايف آئی اے سے استفسار کیا کہ امين فہيم کی طرف سے اياز نيازی کے غيرمناسب تقرر پر کيا ايکشن ليا گيا جبکہ مونس الہیٰ کی بريت کيخلاف اپيل دائر کيوں نہيں کی گئی؟ ملزموں کے غيرملکی اکاؤنٹس سے ابھی تک رقم کيوں نہيں نکلوائی گئی۔ايف آئی اے کراچی کے ڈائريکٹر معظم جاہ نے بتاياکہ امين فہيم کے قرض کی ادائيگی کيلئے پراپرٹی فروخت کرانے والا ظفرسليم ايئربلو طيارے کے حادثے ميں انتقال کرچکا ہے، اين آئی سی ايل کو نوے کروڑ روپے ميں فروخت کی گئی اراضی کی ماليت کئی گنا کم تھی يہ رقم سولہ مختلف انفرادی اکاؤنٹس ميں منتقل کی گئی،ان ميں امين فہيم کا اکاؤنٹ بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہی قوم تباہ ہوتی ہے جو چھوٹے اور بڑے ميں فرق کرے، جو تماشے ہونے ہيں وہ اب ہو جائيں،چيف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ ايازنيازی کاغيرقانونی تقرر ہوا، سيکرٹری تجارت کو امين فہيم کيخلاف مقدمہ کرانا چاہيئے تھا، مخدوم صاحب نے جو عدالتی ڈگری لی اسکا کوئی فائدہ نہيں ہوگا،يہ تو وہ پيسہ ہے جو ايک سے دوسری جگہ گيا۔ اسکينڈل سے متعلق جسٹس غلام ربانی کميشن کی رپورٹ بھی عدالت میں پيش کی گئی جسے عدالت نے پبلک کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت گیارہ جون تک ملتوی کردی۔