اردو میں حلف لینے کی نواز شریف کی درخواست صدر زرداری نے مسترد کر دی۔ برادرم فرحت اللہ بابر لاکھ کہیں کہ صدر زرداری اردو نہیں جانتے۔ جن لوگوں نے اردو میں ان کی دھواں دھار تقریریں سنی ہیں وہ کیسے مانیں گے۔ بہرحال یہ پہلی اختلافی صورتحال ہے جس میں نواز شریف نے مفاہمت کی سیاست شروع کی ہے۔ یہ بھی ہوا کہ صوبہ سندھ میں تین زبانوں میں حلف لیا گیا ہے۔ اگر نوازشریف ڈٹ جاتے تو پھر کیا ہوتا قومی زبان کےلئے کوئی حکمران تو ڈٹ جائے۔ کسی دوست نے لکھا ہے کہ 14 اگست کے بعد صدر زرداری پہلی چال چلیں گے۔ اس سے پہلے بھی وہ نواز شریف کو پریشان کر چکے ہیں مگر پنجاب میں گورنر راج لگانے کے بعد صدر زرداری ناکام ہوئے۔ کئی موقعوں پر کامیاب بھی ہوئے اس کامیابی کا ملکی قومی کامیابی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پنجاب میں گورنر راج ناکام ہوا اور پاکستان میں جو راج تھا کےلئے یہ محاورہ یاد آتا ہے۔ عاندھیر نگری چوپٹ راجیہاں راجہ پرویز اشرف بھی یاد آتا ہے صدر زرداری نے لوگوں سے بہت انتقام لیا، جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اور مریم نواز کے علاوہ ایک بزرگ آدمی سفید کرتہ دھوتی میں ملبوس سر پر صافہ باندھے ہوئے تھے وہ مہمانوں کی توجہ کا مرکز تھے۔ سب لوگ بن سنور کر آئے تھے مگر ایک سادہ آسودہ آدمی ہر شے سے بے نیاز ایوان صدر میں اس طرح گھوم رہا تھا جیسے یہ ان کی ملکیت ہو۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر زرداری سے پانچ سال پورے کرانے کا ٹھیکہ میرے پاس تھا۔ کوئی بھی انہیں زیر کرنے میں کا میاب نہ ہو سکا۔ وہ میرے مشورے پر پہاڑوں سے سمندر کے قریب جاتے تھے۔ (واقعی ان کا بہت وقت بلاول ہاﺅس کراچی میں سمندر کنارے گزرتا تھا) پیر حاجی اعجاز صاحب نے کہا کہ اگر الیکشن میں وہ سمندر کے پاس نہ جاتے تو سندھ میں بھی ہار جاتے میں اب پھر ایسی ”گوٹی“ فٹ کروں گا کہ صدر زرداری مزید دو سال نکال جائیں گے۔ میں نے نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کو ان کے گھر جا کے بتا دیا تھا کہ ان کا بیٹا اٹک قلعہ سے نکل جائے گا۔ایک زمانے میں پیر اعجاز نواز شریف کے بہت قریب تھے۔ نواز شریف کو فائدہ ہوا ہو گا وہ بھی پیر پرست ہیں اور ان کے گھر کا ماحول مذہبی ہے۔ شریف فیملی مجید نظامی کے بہت قریب ہے۔ نظریاتی اعتبار سے نظامی صاحب ان سے خفا بھی ہوتے رہتے ہیں۔ نواز شریف کے گھر میں الیکشن کے دنوں میں آیت کریمہ کا ورد ہوتا رہا ہے۔ پیر اعجاز ان سے خفا ہو گئے۔ پیر اعجاز سعودی عرب گئے تھے جہاں جدہ کے سرور محل میں شریف فیملی سرور و انبساط کے ساتھ قیام پذیر تھی۔ تو کیپٹن صفدر نے انہیں محل کے اندر نہ آنے دیا اور وہ خفا ہوکے چلے آئے پھر زرداری صاحب نے ان سے رجوع کیا جبکہ کیپٹن صفدر بھی پیر پرست ہیں مانسہرہ میں بابا دھنکہ کے پاس آتے جاتے تھے۔ بابا دھنکہ کی شہرت دور دور تک تھی۔ وہ ایک پتھر پر کھلے آسمان تلے35 سال تک بیٹھے رہے۔ دھوپ اور بارش جیسے ان کی سہلیاں تھیں۔ جو بھی آدمی ان کے پاس جاتا اور وہ موڈ میں آتے تو اس کے کندھے پر سوٹیاں (ڈنڈے) مارتے۔ لمبی چوڑی دعا نہ کرتے ۔ زیادہ بات بھی نہ کرتے”اللہ نبیﷺ خیر کرسی، صدق دی رضا اے، نمبر لگ گیا اے“(اللہ نبیﷺ خیر کرے گا۔ سچائی خلوص کی فتح ہو گی۔ نمبر لگ گیا ہے) ان کے پاس نواز شریف اور بے نظیر بھٹو بھی گئیں تھیں۔ اور ڈنڈے کھائے تھے۔ نوائے وقت میں پیر اعجاز کی خبر شائع ہوئی ہے تو مجھے یاد آیا کہ وہ صدر زرداری کے پیر ہیں ایک بار گورنر ہاﺅس لاہور میں صدر زرداری کے پاس آئے تو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ایوان کارکنان پاکستان میں بھی تشریف لائے تھے۔ برادرم شاہد رشید سے ان کی بڑی محبت ہے وہ مجید نظامی کے بھی معترف اورمداح ہیں۔ شاہد صاحب کسی دفتری معاملے میں مصروف تھے اور مجھے ان کی خدمت میں کچھ دیر بیٹھنے کا موقع ملا۔ وہ بے لوث آدمی ہیں۔ انہوں نے شریف فیملی اور ایوان صدر سے کوئی فائدہ نہیں لیا۔ روایتی پیر بالکل نہیں۔ سچے گہرے دیہاتی آدمی ہیں۔ اقتدار گاہوں میں جا کے بھی فطرت کے قریب رہتے ہیں بالواسطہ ان کے روحانی تصرف کا فائدہ نواز شریف زرداری کو بھی ملا ہو گا؟ان کی یہ بات قابل غور ہے کہ اگلے دو سال کےلئے بھی صدر زرداری کے ایوان صدر میں رہنے کا اہتمام ہو رہا ہے۔ اس سے نواز شریف کے پانچ سال کا کیا تعلق ہے؟وہ اقتدار کی بجائے اقدار کی بات کرتے ہیں صدر زرداری اقتدار کو جمہوریت کہتے ہیں۔ ان کے پانچ سال کےلئے نواز شریف نے بھی کوشش کی ہے۔ فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے بھی برداشت کئے ہیں۔ صدر زرداری نے ایوان صدر میں پانچ سال گزارے تو ”ایوان انتظار“ میں نواز شریف نے بھی پانچ سال گزار لئے۔ موجودہ سیاسی ماحول میں ایوان اقتدار اور ایوان انتظار میں کوئی فرق نہیں۔ مخدوم امین فہیم کی یہ بات جو انہوں نے قومی اسمبلی میں نواز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے پر کہی ہے بہت معنی خیز اور طنزیہ ہے کہ ایجنسیاں بھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔ اخبارات میں یہ خبر اس طرح شائع ہوئی ہے وزیراعظم نواز شریف کی مبارکباد کے ساتھ کسی حد تک ایجنسیوں کو بھی مبارکباد ملنی چاہئے۔ پاکستانی ایجنسیاں بھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔ تفصیل میں نہیں جاﺅنگا“۔ نواز شریف کے وزیراعظم بننے پر ایجنسیاں بھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔ محمود اچکزئی میرے پسندیدہ سیاستدان ہیں سچے بے لوث محب الوطن اور بہادر، مگر وہ نئی قومی اسمبلی میں بار بار فوج اور ایجنسیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ فوجی اب کے سیاستدانوں سے زیادہ ”جمہوری“ ہیں۔ ماضی میں جو کچھ ہوا ہے اسے بھول جانا چاہئے اور سیاستدانوں کو ایسا طرز عمل اختیار کر کے گڈ گورننس کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ ایسی نوبت نہ آئے جس میں سیاستدان بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ محمود اچکزئی اب یہ تکرار چھوڑ دیں اور مخدوم امین فہیم کو سمجھائیں کہ اگر ایسی کوئی بات ہے بھی تو اب جانے دیں۔ اپنے خلاف سازش کا مقابلہ نہ کر سکنے والے ناکام سمجھے جاتے ہیں صدر زرداری نے بھی کہا تھا کہ وہ عالمی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔ آخر کونسا خوف ہے جو دل ہی دل میں سیاستدانوں کو بے قرار کرتا رہتا ہے۔ خدا کی قسم سیاسی حکمران لوگوں کے لئے کچھ کریں تو عوام خود کسی جرنیل کو قبول نہیں کریں گے۔ جرنیل حکمران بھی لوگوں کےلئے کچھ نہ کر سکے اور پاکستان کو ایک خوشحال اور خود مختار ملک نہ بنا سکے۔ وہ سیاستدانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کے آئے۔ ۔ اس موقع پر جنرل کیانی اور ان کے ساتھی جرنیل بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ نظریاتی اور پاکستانی طاقت کسی میں نہیں۔ سیاستدان بھی اکٹھے ہو جائیں۔ انتقام نہیں احترام۔ تکبر نہیں تدبر، اقربا پروری اور دوست نوازی نہیں میرٹ اور انصاف، ا پنی پارٹی چھوڑ کر آنے والوں کو قبول نہ کیا جائے۔ محمود اچکزئی کی صورت میں نواز شریف کو ایک سچا دوست ملا ہے۔ دوست وہ ہے جو دوست کو اس کی غلطیوں سے آگاہ کرے۔ محمود اچکزئی فوج اور ایجنسیوں کا بار بار ذکر نہ کریں اور نواز شریف کو مستقل خوشامندیوں مفاد پرستوں، مشیروں نالائق دوستوں، سازشی ساتھیوں اور زر خرید کالم نگاروں سے بچائیں۔ نواز شریف کو سمجھاتے رہیں اور مخدوم امین فہیم کو بھی سمجھائیں ۔آخر میں کلثوم نواز کو بھی مبارکباد کہ وہ بھی تیسری بار خاتون اول بنی ہیں۔ وہ جانتی ہونگی کہ مادر ملت خاتون پاکستان تھیں اور ہیں۔ مرتبہ وہی اچھا جس میں ہمیشگی ہو۔