اللہ تعالی کا بڑا احسان ہے کہ پاکستان دفاعی محاذ پر خود کفالت کی منزل سے ہمکنار ہو چکا ہے اگرچہ اس کا کریڈٹ ان تمام جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کی قیادت کو جاتا ہے جو 1973ءسے لے کر 28 مئی 1998 تک کے عرصے کے دوران بھی یکے بعد دیگرے برسراقتدار رہیں۔ مگر اس تاریخی بارات کے دلہا ہونے کا شرف وزیراعظم میاں نواز شریف کو حاصل ہوا۔ اپنی تمام تر ذاتی وجاہتوں کے باوجود میاں نواز شریف اس مقام و مرتبہ کے بارے میں پراعتماد نہ تھے نہ اس مقام کی قدروقیمت سے آشنا تھے۔ اس فیصلے نے انہیں تاریخ کے صفحات پر جگمگا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب تاریخ ان کے نام کے انتظار میں تھی تو میاں نواز شریف ”جی حضوریوں“ چاپلوسوں اور خوشامدیوں کے ہجوم بیکراں میں گھرے تھے۔ ان کی ہر جائز وناجائز بات پر واہ واہ کرنے والوں کی بڑی کھیپ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی سعی کرکے اپنی ہمدردیاں جتا رہی تھی۔ ایسے میں میاں نواز شریف کی قسمت نے یاوری کی خوش قسمتی سے اس وقت کے نقارخانے میں خیبر سے لے کر کیماڑی تک کے ماحول میں ایک آواز نے ارتعاش پیدا کر دیا۔ اس آواز نے وزیراعظم میاں نواز شریف کے دل و دماغ میں عزت نفس اور غیرت قومی کا چراغ روشن کر دیا۔ وہ قلندرانہ آواز قائدؒ و اقبالؒ کے فرمودات و تعلیمات کے مطابق ملکی نظام کو دیکھنے کے تمنائی ڈاکٹر مجید نظامی کی تھی۔ ان کی ”ہلاشیری“ نہ ہوتی تو نہ میاں نواز شریف تذبذب کے اس جال سے نکل پاتے جو وقت کے بزعم خود دانشور لال بجھکڑوں نے اپنی اپنی بودی دلیلوں سے ان کے گرد بن رکھا تھا پھر میاں نواز شریف کو شاید چاغی کی پہاڑیوں میں وہ بٹن دبانے کا حوصلہ نہ ہوتا جس کے نتیجے میں پاکستان کو دفاعی خودکفالت سے ہمکنار کرنے کے ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی تاریخ کے روشن صفحات پر رقم ہوا۔
میاں نواز شریف نے اس حقیقت کا اظہار نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیر اہتمام یوم تکبیر پر منعقدہ تقریب میں از خود اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے بڑے نیاز مندانہ انداز میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ ڈاکٹر مجید نظامی نے ایٹمی دھماکہ کرنے پر زور دے کر میرے تذبذب کو ختم کیا۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی موجودگی میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں آج اس لئے یہاں آیا ہوں کہ اپنے بارے میں ڈاکٹر مجید نظامی کی گفتگو سنوں ہم نے ہمیشہ ان کے پیار کو یاد رکھا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر مجید نظامی نے ملکی اور قومی مفاد ہی کی خاطر جس طرح گزشتہ نصف صدی کے دوران برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں کے سربراہوں کو بے باکانہ مشورے دیئے اسی طرح انہوں نے ہمیشہ میاں نواز شریف کو بھی لگی لپٹی بغیر سرعام کھلے لفظوں میں ایسی باتیں کہیں اور وہ تمام تجاویز دیں جن سے پاکستان اور قوم کے مفادات وابستہ ہیں۔ انہوں نے یوم تکبیر کی تقریب میں بھی خطاب کرتے ہوئے یہ بات میاں نواز شریف کی بھارت یاترا کے حوالے سے کہی کہ وہ بھارت کے معاملے میں محتاط رہیں۔ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے قومی مفادات کو نقصان پہنچے۔ اب یہ بات میاں نواز شریف کی فہم و بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ ڈاکٹر مجید نظامی کی اس ”رمز“ کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں!! میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں دفاعی محاذ پر پاکستان کی حودکفالت کی بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اقتصادی محاذ پر پاکستان کی خود کفالت اور خود انحصاری حاصل کریں گے جہاں تک زبانی جمع خرچ کا تعلق ہے اس حوالے سے ان کی اور ان کی حکومت کے تمام دعوے نقش برآب ثابت ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے حکومت کی ایک سال کی کارکردگی صفر ہے عوام جان گئے ہیں کہ حکومت کا کوئی اقتصادی ایجنڈا ہی نہیں ہے ہوتا تو اس کے خدوخال ضرور تشت از عام ہوتے۔ اقتصادی ایجنڈے کے بغیر پاکستان کو اور اس کے عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے دعوے محض سراب ہیں۔ بلاشبہ دفاعی خودکفالت کی منزل فخر یوم تکبیر پر آ کر منتج ہوتی اور اس نام کے ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی ہمیشہ لیا جاتا رہے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ 28 مئی 1998ءکو چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی بٹن دبانے کے بعد انہوں نے اقتصادی خودکفالت کے جس ایجنڈے کا بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا اسے انہوں نے فراموش کر دیا ہے۔ بلاشبہ مرورِ زمانہ کے ہاتھوں انہیں اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر خدا نے انہیں ایک بار پھر ملک کا اقتدار سونپا ہے تو وہ ملک اور قوم کی بہتری اور خوشحالی کے پروگراموں کو برسوں کی گرد کی نذر کئے رکھیں۔ انہیں اپنے ماضی میں جھانکتے ہوئے اپنے ان دعوﺅں کو یاد کرنا چاہئے جو انہوں نے قوم سے کئے تھے۔
28 مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکوں کے بعد میاں نواز شریف نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اپنی تاریخی تقریر میں دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا تھا کہ ’میں یقین دلاتا ہوں کہ حکومت نے اسراف اور نمائش کے سارے طور طریقے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بڑے بڑے دفاتر سب آپ کی خدمت کے لئے وقف کر دیئے جائیں گے بڑی بڑی سرکاری رہائش گاہوں کو سکولوں وہسپتالوں میں تبدیل کر دیا جائے گا وہاں خواتین یونیورسٹیاں بنیں گی اور کہیں انہیں بیچ کر قرضے اتارے جائیں گے۔
اور....”میں وزیراعظم سکرٹریٹ کی عالی شان عمارت چھوڑنے کا فیصلہ کر چکا ہوں اور مکمل سادگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے کس مصرف میں میں لایا جائے گا۔ اس کا فیصلہ وفاقی کابینہ کرے گی“۔ .... .... .... جن لوگوں نے اربوں روپے کے قرضے لئے لیکن معاف کرا لئے انہیں اب یہ پیسہ واپس لوٹانا ہو گا۔ .... اگر آپ کو ایک وقت کے کھانے پر گزارا کرنا پڑا تو میں اور میرے بچے بھی ایک وقت کا کھانا کھائیں گے،.... غیروں سے قرض لے کر خوداعتمادی کو مجروح نہیں کریں گے“۔
یہ بجا کہ میاں نواز شریف کو قدرت نے ان دنوں اتنی مہلت نہ دی کہ وہ اپنے ان وعدوں کو سچ کر دکھاتے جب کہ اب تو پھر ایک بار قدرت نے انہیں ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بنا دیا ہے۔ وفاق میں ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ان کی عظیم اکثریت ہے۔ بلاشبہ شرکت غیرے ملک کی ستر پچھتر فیصد سے زائد آبادی پر ان کی حکومت ہے۔ اور ملکی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ انہیں اپنے وعدوں کو ایفا کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے ملک اب بھی بھاری غیر ملکی قرضوں کے باعث ذلت ورسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے جن لوگوں نے ناقابل یقین حد تک قرضے معاف کرائے تھے وہ ابھی تک عیش و نشاط کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بڑی بڑی بلکہ ایکڑوں پر محیط بڑی بڑی سرکاری رہائش گاہیں اسی طرح برقرار رہیں اور وزیراعظم سکریریٹ کی پرشکوہ عمارت ابھی تک وزیراعظم کی طرف سے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی منتظر ہے۔ رہی بات ایک وقت کی روٹی کھانے کی۔ تو اب حالات اس قدر سنگین تر ہو چکے ہیں کہ انگنت بلکہ ملک کے لاکھوں خاندانوں کو ایک وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کر نصیب نہیں ہو رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن اقتصادی بدحالی سے تنگ آ کر مردوخواتین خودکشیاں کر رہے ہیں۔
غریبوں کی تعداد کروڑوں خاندانوں تک جا پہنچی ہے غریب بھی وہ جنہیں مفلسی اور قلاشی کے ہاتھوں جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اقتصادی خود کفالت کے حوالے سے کوئی حکومتی ایجنڈا اس وقت تک ثمرآور نہیں ہو سکتا جب تک اس ایجنڈے میں فاقہ کش پاکستانیوں کو ان قیمتوں پر ضروریات زندگی فراہم کرنے کا بندوبست نہ ہو جو ان محروم و بے بس لوگوں کی قوت خرید کے اندر ہوں۔ یہ کہنا کہ ملک میں زرعی اجناس اور دیگر اشیا نے خورونوش کی کوئی کمی نہیں اور ہر شے آسانی سے دستیاب ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر آدمی ان اشیا کو خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے؟
اشیا خورونوش اپنی چند ہزار خاندانوں کی دسترس میں ہے جو بوجوہ اقتصادی طور پر خودکفالت اور خودانحصاری سے ہمکنار ہیں۔ حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ ملک کی عظیم ترین اکثریت بدترین اقتصادی حالت سے دوچار ہو تو ایسے میں یہ حکومتی پروپیگنڈے انکے نزدیک کس طرح خوش کن ہو سکتے ہیں کہ کراچی سے لاہور تک موٹر وے بنے گا، گوادر سے خنجراب تک شاہراہ تعمیر ہو گی“۔ (جاری)