قارئین! کئی دن سے جو کچھ دیکھ رہا ہوں سہہ رہا ہوں محسوس کر رہا ہوں اس پر بہت کچھ لکھنے کو جی چاہ رہا تھا مگر ارادہ ٹوٹتا رہا ہے خیالات منتشر ہوتے رہے ہیں خیال آ رہا ہے کہ گیس جو ہیٹر کے ذریعے کمرے کو گرم کرتی ہے وہی گیس اگر بیڈ روم یا کمرے میں پھیل جائے تو موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ گیس ایسی چیز ہے اسے اگر غبارے میں بھر دیا جائے تو غبارہ بھی آج کل کے کافی لیڈروں کی طرح اڑان بھرنے کے لئے بے چین و بے قرار ہو جاتا ہے بات کسی اور طرف نکل جانے کا خطرہ ہے اس لئے ہم اس گیس کی بات کرتے ہیں جو اگر کمرے میں کھلی رہ جائے یا منصوبہ بندی سے کھول دی جائے تو اس کے کمرے میں بھرنے تک کمرے میں موجود شخص موت کے منہ میں ہونے کے باوجود بستر سے اٹھ کر گیس بند بھی نہیں کر پاتا۔ہمارے ہاں بھی کچھ ایسے دانشور موجود ہیں جو اس طرح کے کرتب دکھانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ہمارے عمران خاں صاحب بھی تو دھاندلی جھرلو کا ذکر کرنے میں آج کل بہت مصروف ہیں بلکہ اس کام میں بڑی لگن سے جتے ہوئے ہیں عمران خاں سے یاد آیا کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جب اقتدار اور دنیا سے جانے سے پہلے الیکشن کے نام پر سلیکشن کا بندوبست کیا تو انہیں چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سجاد احمد جان سے دو دو ہاتھ کرنے کا خیال آیا۔ اور پھر چیف الیکشن کمشنر کے کمرے میں ہیٹر کھلا رہ گیا یا اسے کھلا رکھنے کی منصوبہ بندی کے سبب چیف الیکشن کمشنر کی موت واقع ہو گئی!!
یہ وہی الیکشن تھا جب میانوالی سے دھاندلا صاحب کے منتخب ہونے کا اعلان کر دیا گیا تھا اور یار لوگوں نے اخبارات میں مزے لے لے کر یہ خبر لگوائی بلکہ اہتمام کر کر کے چھپوائی کہ کسی اور جگہ اگر دھاندلی ہوئی ہو تو ہوئی ہو مگر ہمارے میانوالی میں تو دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا ہے قارئین یہ بات ذہن میں رہے کہ میانوالی کے علاقہ سے منتخب ہونے والے دھاندلا صاحب کے نام سے ان کی ذات دھاندلا کا بڑا چرچہ تھا بلکہ یہ کہا جائے کہ آج کے دور میں میانوالی والے کیپٹن عمران خاں کی دھاندلی کے خلاف تحریک جب ذہن میں آتی ہے تو دھاندلیوں اور دھاندلوں کی پرانی کہانی بھی یاد آ جاتی ہے یہ تو پیارے قارئین کے علم میں ہی ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جب ہر حال میں انتخابات جیتنے کے لئے دھاندلی کا بازار گرم کیا تو اسی افراتفری، ظلم، زیادتی کی تحریک سے تحریک نظام مصطفی برآمد ہوئی۔ جس کے نتیجے میں تقریباً تمام پاکستانی قوم بھٹو مرحوم کے خلاف ہو گئی تھی بھٹو حکومت نے اسے کنٹرول کرنے کی بڑی کوشش کیں، آنسو گیس، لاٹھی چارج کے ساتھ ساتھ جلوسوں کو روکنے کے لئے گولی تک چلانے سے احتراز نہ برتا گیا اور پھر ایسا وقت آیا کہ میرے پیارے شہر لاہور میں نیلا گنبد اور مسلم مسجد کے علاقے جیسے کئی علاقوں میں بہت سے لوگوں کی جانیں لی گئیں اور فوج نے بھی بالآخر نہتے پاکستانیوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ بھٹو صاحب کے ایماء پر فورس کے ذریعے قوم کے بیٹوں ہی نہیں بیٹیوں پر بھی ظلم ڈھائے گئے تب ہی چودھری ظہور الہٰی کی بیٹی عفت مآب قیصری ظہور الہٰی پر نت فورس کے ذریعے ایسے ظلم روا رکھے گئے جنہیں دیکھ کر ظلم بھی شرمانے لگتا ہے۔ قارئین یہاں ہم تھوڑا توقف کرتے ہیں اور آپ ذرا غور کریں کہ ہمارے میانوالی والے عمران خاں صاحب ہی نہیں ٹی وی اینکروں کی کوششوں، کاوشوں کا نتیجہ میں کہیں ہم اس زمانے کی طرف نہ لوٹ جائیں جب ہمارے جیسے سادہ پاکستانیوں نے خواہش گل بوسی میں مارشل لاء (کانٹوں پر زبان رکھ دی تھی) اللہ کرے ہمارے پیارے وطن عزیز پر پھر سے کوئی ایسا دور نہ آجائے جس پر کہنا پڑے کہ …؎
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
اور یاد آیا کہ ہمارے لائل پور کے عوام اخبار کے ایڈیٹر بھی کمرے میں گیس پھیل جانے کے سبب شدید زخمی ہوئے اور پھر ہم سے پہلے ہی دنیا سے اٹھ گئے تھے۔ یہاں یہ بتانے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ہمارے ماضی کے دوست شیخ رشید احمد جنہیں لوگ پنڈی والے کہتے ہیں موصوف کا تعلق شہر قصور سے ہے جس کے بارے میں گلوکارہ نور جہاں نے کہا تھا کہ
میرا سوہنا شہر قصورنی
ہویا دنیا وچ مشہورنی
آخر میں یہ بھی لکھتے چلیں کہ احمد رضا قصوری بھی تو قصور کے رہنے والے تھے جنہوں نے اپنے والد کے قتل کا بدلہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو پھانسی لگوا کر لیا تھا۔