پرویز ٹائون کے بعد شریف ٹائون

برادرم نجم ولی خان نے اسلام آباد یاترا کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایک کھٹارا ویگن لاہور کے صحافیوں کے لئے بھجوائی گئی تھی۔ اس کے لئے بھی عزیزم پرویز رشید کا شکریہ ادا کریں۔ الطاف بھائی جو ہسپتال سے فٹ ہو کر پھر تھانے پہنچ گئے ہیں،کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ فراہم کرنے کو حکومت کا تحمل اور دانش قرار دیا ہے۔ اس کے لئے کریڈٹ پرویز رشید نے لیا ہے۔ یہ دانش تو شاید ہو مگر یہ سیاسی دانش ہے۔ انہوں نے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں برطانوی پولیس سے مکمل تعاون کیا ہے۔ یہ بھی تعاون ہے بلکہ تاوان ہے کہ تاخیری حربے اختیار کئے گئے۔ اس کارکردگی کا کریڈٹ کیوں لیا گیا۔ یہ تو روٹین کی کارروائی ہے۔ الطاف بھائی کو پاکستان آنے سے روکنے کی حکمت عملی بلکہ حکومت عملی کامیاب رہی۔ وہ زیرحراست ہیں اور زیرعلاج بھی ہیں۔ ان کی تیمارداری ’’صدر‘‘ زرداری کا فرض ہے۔ وہ تو ’’صدر‘‘ مشرف سے نہیں ملے نواز شریف کے ڈر سے اب ضمانت پر رہا ہونے کے بعد الطاف بھائی سیدھے پاکستان آئیں تاکہ پرویز رشید کو پریشان ہونے کا موقع ملے۔ وہ کسی زمانے میں گارڈن کالج راولپنڈی میں شیخ رشید کے کلاس فیلو تھے۔ وہ الیکشن ہار گئے تھے۔ ابھی تک ہارے ہوئے وزیر شذیر کے طور پر اپنی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ اب تک لاڈ پیار سے بولتے ہیں۔ لاڈلے پن کا بانکپن ابھی تک ان کے لہجے میں قائم ہے۔ لڑکپن کی یادیں بھولتی نہیں ہیں۔ ایسے میں ان کی مونچھیں اور سفید ہو جاتی ہیں۔ پرویز رشید نے کہا ہے کہ ہم نے الطاف حسین کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کر دیا۔ آج ہی ایم کیو ایم کی ایم این اے طاہرہ یوسف نے مجھے بتایا کہ وہ کراچی دھرنے سے آ رہی ہیں۔ ایسی کوئی اطلاع ہمیں نہیں ہے۔ وہ آج لاہور میں الطاف بھائی کے لئے احتجاجی مظاہرہ کرنے لئے اہتمام کر رہی ہیں۔ پریس کلب لاہور کے سامنے سب اہتمام انہوں نے خود کیا ہے۔ رائو خالد ملتان میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنے میں بیٹھا ہوا میرے ساتھ فون پر بات کر رہا تھا۔
ایک دوسرے پرویز (پرویز خٹک) نے شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لئے ساتویں نمبر پر آنے والی ڈاکٹر رضیہ سلطانہ کو تعینات کر دیا ہے۔ پہلے نمبر پر آنے والی ڈاکٹر فرحانہ جہانگیر حیران ہے کہ میرٹ کیا ہے؟ خیبر پی کے میں تحریک انصاف میں  عمران خان کے فنانسر جہانگیر ترین کا عمل دخل بہت ہے۔ ڈاکٹر فرحانہ جہانگیر کو فوری طور پر جہانگیر ترین سے رابطہ کرنا چاہئے۔ سنا ہے وہ 40 لاکھ روزانہ کے حساب سے عمران خان پر خرچ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے لاہور کے علیم خان بھی بہت دل والے آدمی ہیں۔ رضیہ سلطانہ تو ہندوستان (پاکستان + بھارت)  کی بادشاہ تھی۔ اب یہ حکومت شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی میں قائم ہو گی۔ جس کا افتتاح وزیر خزانہ اسحاق ڈار کریں گے۔ انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ تحریک انصاف کے ایم این اے اسد عمر کو ن لیگ نے سینٹ کا ٹکٹ نہیں دیا تو وہ روٹھ گئے۔ اسد عمر جنرل عمر کا بیٹا ہے اور وہ جنرل یحیٰی خان کے سکیورٹی کونسل کے انچارج تھے۔ سقوط مشرقی پاکستان میں حصہ دار تھے۔ جنرل عمر نے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کے لئے آمادہ کیا تھا۔ اس طرح ہمارے منہ پر ہمیشہ کے لئے کالک مل دی گئی۔ مشرقی پاکستان میں شکست تو ہو گئی تھی۔ پھر ہتھیار ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ عمران بھی نیازی ہے مگر لکھتے ہوئے شرماتا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ یا میں نیازی نہ ہوتا یا وہ نیازی نہ ہوتا۔ مگر اپنے نام کے ساتھ نیازی لکھتا ہوں۔ بدلہ لینے کی آرزو میں پگھلتا رہتا ہوں۔ عمران خان کا خمیر بھی میانوالی کی مٹی سے اٹھا ہے اور عائلہ ملک بھی میانوالی کی ہے۔ اسد عمر کو شہباز شریف کی یہ بات یاد ہے۔ ’’آپ چاہیں تو اب بھی ن لیگ میں آ سکتے ہیں۔‘‘ مجھے ممتاز صحافی حفیظ اللہ شاہ نے بتایا کہ انعام اللہ خان نیازی ن لیگ میں واپس جا رہے ہیں۔ مجھے نجیب اللہ خان نیازی پسند ہے۔ وہ بھکر سے ایم پی اے بنے۔ میانوالی کے نجیب شخص نے ابھی تک بھکر کو میانوالی کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ وہ ن لیگ میں چلا گیا ہے۔
سیاست کے ایک پرویز چودھری پرویز آج کل اپنے بھائی چودھری شجاعت کے ساتھ لندن میں علامہ طاہرالقادری کے ساتھ سیاست کو ایک رنگا رنگی دے رہے ہیں۔ الطاف حسین سے ملاقات کی بات بھی آئی تھی۔ اب تو ان سے ملاقات ضروری ہے۔ چودھری شجاعت کی یہ بات غور طلب ہے کہ ہماری تحریک انقلاب کی شکل اختیار کر لے گی۔ اس کے بعد بھی انتخاب ہوں گے اور وہی لوگ آئیں گے جو آتے رہتے ہیں مگر یہاں منیر نیازی کو سنئے:
تیرے جیسے تو آتے رہتے ہیں
آتے رہتے ہیں جاتے رہتے ہیں
اس آنے جانے میں باریاں لگی ہوئی ہیں۔ عوام آسمان کی طرف دیکھتے رہ جاتے ہیں اور باریاں بارہ دریاں بن جاتی ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک ایم این اے تھے۔ ان کا نام بھول گیا ہوں۔ یہ بھی یاد نہیں کہ وہ کس مسلم لیگ سے تھے۔ وہی لیگ یا پارٹی جو حکومت میں ہوتی ہے ق ہو یا ن ہو۔ ہر دم سرکاری رکن اسمبلی نے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے کہا کہ میں نے ایک بستی بسائی ہے۔ اس کا نام پرویز ٹائون رکھا ہے۔ تب جنرل پرویز مشرف صدر تھے۔ اسے کہتے ہیں ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔ ایک تیر سے دو شکار، چپڑیاں تے نالے دو دو۔ اب نہ پرویز الٰہی ہیں نہ پرویز مشرف، مگر پرویز رشید تو ہیں۔ وہ ’’سنیٹر‘‘ پرویز رشید سے مل چکے ہوں گے۔ میری ان سے گذارش ہے کہ وہ اب یہ نام تبدیل کر کے اپنی بستی کا نام ’’شریف ٹائون‘‘ رکھ لیں۔ اس طرح نواز شریف، شہباز شریف تو خوش ہوں گے۔ جنرل راحیل شریف تک بھی ’’رسائی‘‘ ہو جائے گی۔ اور بات تھری ان ون تک جا پہنچے گی۔ تب بھی کوئی پرویز اس بستی میں نہ گیا تھا مگر آج پرویز ملک ایم این اے ضرور پہنچے گا۔ وہ بھی بہت وفا والے آدمی ہیں۔ ن لیگ کے تاجر ونگ کے لئے بھی حمزہ شہباز کی اجازت کے بغیر کوئی پوسٹنگ نہیں کرتے۔ اپنے پارٹی لیڈر کے ساتھ کمٹمنٹ ایسی ہی ہونا چاہئے حمزہ شہباز شریف ان دنوں ن لیگ کے معاملات کو بہت توجہ سے دیکھ رہے ہیں۔
آخر میں صرف ایک بات کہ ہمارے صحافی بھائی جو اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں کہتے ہیں کہ بیرونی معاملات کے لئے پڑھائی گئی آئی ایس آئی آہستہ آہستہ اندرونی ہو گئی ہے۔ نجم سیٹھی صاحب سی آئی اے کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ بھارتی ’’را‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ بیرونی ہے تو کیا بیرون میں صرف پاکستان آتا ہے۔ پاکستان کو آج کل بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات ہیں۔ اندر زیادہ دشمن ہیں۔ انہیں پہچاننا بھی بڑا کام ہے۔ بھارتی دہشت گرد کشمیر سنگھ کو نگران وزیر انصار برنی جھنڈے والی کار میں واہگے تک لے گیا تھا۔ نجم سیٹھی تو نگران وزیراعلیٰ تھے۔ آج بھی اپنی نگرانی کی حکمرانی اور من مانی میں ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...