تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کوہاٹ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتساب نہ ہونے دیا گیا تو سڑکوں پر نکلیں گے ۔پانامہ لیکس کا معاملہ 2018ء تک نہیں جانے دینگے۔ ایک ہی ضابطہ کار کے مطابق میرا اور وزیر اعظم کا احتساب کر لیں۔ نواز شریف نے کرپشن نہیں کی تو مسلم لیگ ن والے ٹی او آرز سے کیوں ڈر رہے ہیں۔
احتساب کے حوالے سے عمران خان کا موقف درست اور مضبوط ہے۔ اس کا حکومتی پارٹی سے کوئی جواب نہیں بن پاتا تو اسکے حکومتی اور پارٹی عہدیدار تحریک انصاف اور دوسری پارٹیوں میں کرپشن اور کرپٹ عناصر کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی میں شامل اپوزیشن ارکان کو شاید اپنے بھائی بندوں کی آف شور کمپنیوں، کرپشن اور قرض معاف کرانے کے جرائم نظر آتے ہیں اس لیے انکی کمٹمنٹ بھی مشکوک لگتی ہے۔ صدر ممنون حسین سے درست کہا کہ پانامہ لیکس قدرت کی طرف سے آیا ہے۔ انہوں نے ملکی وسائل لوٹنے والوں کے احتساب پر زور دیا تھا۔ چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ پانامہ لیکس پر سیاست ہو رہی ہے ورنہ ضابطہ کار دو گھنٹے میں طے ہو سکتا ہے۔ واقعی آج کرپٹ لوگوں کے احتساب کا بہترین موقع ہے۔ عمران خان کی اس حوالے سے آواز سب سے بلند ہے مگر انکے قول و فعل میں تضاد نظر آتا ہے۔ وہ پانامہ لیکس کی تحقیقات تک نواز شریف سے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے الگ ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ انکے ساتھیوں کی آف شور کمپنیاں نکل آئی ہیں کئی قرض معاف کرانیوالے انکے ساتھ ہیں اور تحریک انصاف کے 5 ایم این ایز نے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک پر کرپشن کا الزام لگایا ہے۔ عمران خان وہی فارمولا اپنے وزیر اعلیٰ پر لاگو کریں جو وہ وزیر اعظم پر لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ پرویز خٹک کو ان کیخلاف الزامات کی تحقیقات تک وزارت علیہ کے عہدے سے ہٹا دیں تو وزیر اعظم پر بھی پانامہ لیکس کی تحقیقات تک عہدے سے الگ ہونے کیلئے دبائو ہو گا۔