منگل کو بھارتی وزیراعظم صدر اوبامہ سے مل رہے ہیں۔ بظاہر امریکی مدد سے پاکستان کا محاصرہ مکمل ہو رہا ہے۔ کیا بھارت بہت انسانیت نواز‘ مذہب کی بنیاد پر مساوی انسانی حیثیت ‘ اقلیتوں ‘ ہندو پڑوسی ریاستوں کیلئے جنت نظیر ہے ؟ اگر تو ایسا ہوتا تو امریکہ و مغرب کی طرف سے طویل مدت سے جس فیاضی سے بھارت کو پاکستان کی قربانیوں‘ افغانستان میں امریکہ کی خاطر دوستوں کو دشمن بنا لینے کے باوجود بھی نظر انداز کرکے بھارت کو علاقائی قوت سے عالمی قوت میں تبدیل کیا گیا ہے۔ یقیناً ہم صدق دل سے اس امریکی فیصلے کو تسلیم کر لیتے مگر سوال ہے کہ ڈھاکہ جا کر بنگلہ دیش کی تخلیق کا اعزاز اپنے نام کرنیوالے وزیراعظم مودی نے بنگلہ دیش کو اس کے حصے کا دریائی پانی اب تک کیوں نہیں دیا ؟ ہندو ریاست نیپال اور سری لنکا تو مسلمان نہیں انکے ساتھ ”گوا“ کو ہضم کرنے جیسا سلوک کیوں ہے ؟ کیا کمزور پڑوسیوں کو حیدر آباد دکن‘ کشمیر و آسام و گوا کی طرح ہضم کرنے والا توسیع پسند بھارت امریکی مدد‘ سرپرستی اور تعاون کرتی عسکری ‘ ایٹمی‘ معاشی ظالمانہ تدبیروں سے ایک ایک کرکے ”سب“ ہی کو ہڑپ کر جائےگا؟ اگر مقصد یہی ہے تو امریکہ کو مبارک ہو کہ وہ خود توسیع پسند ‘ عموماً مسلمان مفادات دشمن ایمپریل طاقت ہونے کے ناطے اپنے جیسے توسیع پسند اور مسلمان دشمن مفادات پر کاربند انتہا پسند بھارتی وزیراعظم کو بار بار سینے سے لگا رہا ہے۔ کیا امریکہ میں ہر جگہ انسانیت نوازی کا خاتمہ ہے ؟ تعصب ‘ تنگ نظری کی میت کو دوبارہ زندہ کرنے کا نظریہ تخلیق ہو گیا ہے ؟ ٹرمپ کے صدر بننے سے بہت پہلے ہی امریکی فیصلہ ساز اداروں نے توسیع پسند اسرائیل کی طرح بھارت کی مکمل سرپرستی اور مدد کا طویل مدتی فیصلہ کیا ہوا تھا ؟ جب امریکی صدر بش نے افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسے ”کروسیڈ“ کہا تھا تو ساتھ اس کروسیڈی جنگ میں بھارت کو پاکستانی مفادات کی لاش پر افغانستان کا واضح اور دو ٹوک کردار بنایا تھا۔ بھارتی وزیراعظم مودی بظاہر علاقائی سطح پر کامیاب دکھائی دیتے ہیں وہ حال ہی میں چا بہار بندر گاہ کا افتتاح افغان صدر اشرف غنی اور ایرانی صدر حسن روحانی کے ہمراہ کر کے چا بہار کو افغانستان و سینٹرل ایشیا میں بھارتی مفادات کی تکمیل کا نام دے چکے ہیں۔ انہوںنے ایرانی سرحد کے قریب ہرات میں ایسے ڈیم کا افتتاح کیا ہے جس سے ایران کو ملنے والی پانی کی شدید قلت فطری بات ہوگی۔ انہوں نے قطر میں حال ہی میں وزیراعظم عبداﷲ بن ناصر خلیفہ ثانی سے ملاقات کی ہے اور تعاون بڑھانے والے کئی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں ۔ ماضی میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا بھی وہ دورہ کر چکے ہیں۔ قاتل وزیراعظم مودی کی قاتل ساتھی وزیراعظم بنگلہ دیش حسینہ واجد نے ریاض میں سعودی بادشاہ سے ملاقات کی ہے اور دونوں ممالک میں کئی معاہدے ہو چکے ہیں۔ کیا دنیا اب مسلمانوں کے قاتلوں کو ہی عزت و احترام دےگی ؟ گجرات میں مسلمانوں کے قاتل مودی کے ساتھیوں کی اکثریت کو عدالتی فیصلے نے بری کر دیا ہے۔ کیا خون مسلمان اتنا ارزاں ہے کہ اس سے مودی بھارت میں اور حسینہ واجد بنگلہ دیش میں بار بار شوق سے زمین کو رنگین بناتے ہیں مگر نہ بھارت عمدہ ترین حکمت عملی رکھتا ہے نہ ہی انسانیت نواز ہے نہ ہی پڑوسیوں سے اچھے تعلقات رکھتا ہے مگر اسے (پاکستان کو تنہا کرنے میں) جو پذیرائی مل چکی ہے وہ امریکی عزائم و مدد کی بنیاد پر ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سکھوں کے قتل عام یعنی آپریشن گولڈن ٹمپل (جس میں کم از کم سات ہزار سکھ مارے گئے تھے) میں اندرا گاندھی کا مدد گار امریکہ نہ تھا سکھ ہر سال اس قتل عام پر آنسو بہاتے ہیں۔ اپنے اتحادیوں کیساتھ امریکہ پاکستان کےساتھ وہی سلوک کر رہا ہے جو پرنس سہانوک کےساتھ ہوا تھا۔ بھارتی وزیراعظم مودی کا موجودہ دورہ امریکہ اصل میں تو نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کا ہدف لئے ہوئے ہے اتحادی پاکستان کو جس طرح افغانستان میں نظر انداز کیا گیا تھا اسی طرح نیوکلیر سپلائر گروپ کی رکنیت کے حوالے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے امریکی طیاورں کی جگہ دوسرے ممالک سے طیارے حاصل کرنے کا صحیح فیصلہ کیا ہے امریکی وعدوں پر اعتبار اور انحصار اب ختم ہونا چاہئے۔ امریکہ و بھارت مل کر جنوبی ایشیا و سینٹرل ایشیاءاور مشرق وسطیٰ میں مزید جنگی جنون کو ہوا دیتے رہیں گے اور جواب میں متاثر ہونیوالے ممالک کچھ بھی نہ کرینگے ؟ اس کا جواب نفی میں ہے چین کو امریکہ نے کہا ہے کہ وہ بحر جنوبی چین میں اشتعال انگیز کارروائیاں کر رہا ہے۔ 5 جون کو ”شانگریلا ڈائیلاگ“ میں امریکی وزیر دفاع نے یہ بھی کہا ہے کہ ”ورنہ چین عالمی برادری میں تنہا ہو جائیگا۔“ جبکہ چین نے امریکی وزیر دفاع کو فوراً جواب دیا ہے کہ امریکہ سلامتی سے متعلق وعدوں سے انحراف کر رہا ہے لہذا امریکہ سابقہ وعدوں کی پاسداری کرے۔ چینی موقف کے ساتھ افغانستان میں ملا عمر اقتدار کے خاتمے میں پاکستانی جنرل مشرف کو استعمال کرنے کےلئے جو جو وعدے کئے تھے اور مستقبل کی حکومت میں پاکستانی موقف کو قبول کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اسے ملا عمر اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی طاق نسیان میں رکھ دیا گیا تھا۔ لہذا وجدان کہتا ہے کہ ایسا ہی طرز عمل چین کو ایشیا اور بحرالکاہل میں پیش ہو گا۔ وجدان مزید کہہ رہا ہے کہ امریکہ مزید جنگی شعلے بلند کریگا۔ جنوبی ایشیا اور سینٹرل ایشیا میں پاکستان کو مزید نظر انداز کر کے بھارت کی مزید سرپرستی کرتے ہوئے عالمی جنگ کے تمام ممکنہ آپشن کو زندہ کر دیگا۔ 2 مئی کو ایبٹ آباد آپریشن اور اب ملا منصور کا قتل امریکہ کی پاکستانی حیثیت اور دفاع کو مشکوک اور کمزور بنا کر بھارت کو فائدہ دیتے واقعات ہیں۔ آرمی چیف نے ڈرون حملوں کی روک تھام کا درست مطالبہ ۔کیا ہے۔ وجدان بتا رہا ہے کہ 2017ءمیں امریکہ جہاں ہیلری کلنٹن کی صدارت میں بہت شہرت پائے گا وہاں امریکہ اپنے لئے سچ مچ کا نیا ویت نام بھی تخلیق کرے گا۔ اہل پاکستان مایوس نہ ہوں۔ رمضان شروع ہو چکا ہے ‘ اپنے لئے‘ تمام مسلمانوں کیلئے‘ پاکستان کےلئے اﷲ سے بھیک مانگیں اﷲ تعالیٰ خیر کرے گا۔ انشاءاﷲ