قارئین یہ ”زندگی“ جو ہم آپ گزار رہے ہیں عجیب سا گورکھ دھندا ہے اس کو مکمل طور پر سمجھنا یقینا ناممکن ہے تاہم اگر اسے سمجھ کر گزارنے کیلئے تھوڑی سی روحانی محنت مزدوری کر لی جائے تو ممکن ہے کچھ بہتر صورتحال سامنے آ سکے اس میں ایک دوسرے کے لیے شدید نفرتیں، نام نہاد محبتیں، عارضی خوشیاں، مستقل صدمات، ناقابل برداشت حماقتیں، ناقابل یقین درندگی کے واقعات بلکہ مزید بھی بہت بہت کچھ موجود ہے۔ اس بے درد صورتحال میں بہت سی درد ناک سوچیں ہمیں اکثر بے حال و متلاطم رکھتی ہیں دکھ اور درد کبھی کبھی اقوال میں اور کبھی فکر و تدبر کی صورت میں ڈھلتے رہتے ہیں۔ آج ایسی ہی کچھ فکر مند مگر روشن سوچیں قارئین کے سامنے رکھتے ہیں ممکن ہے کسی کو ان سے زندگی کے کچھ راست راستے سوجھائی دے جائیں یا کچھ روحانی سکون مل سکے۔
o ہر زور ایک نیکی یہ سوچ کر کر لیں کہ ممکن ہے کہ زندگی یہ موقع نہ دے اور ایک بدی یہ سوچ کر چھوڑ دیں کہ ہو سکتا ہے اسے چھوڑنے کی کل فرصت نہ مل سکے۔o دنیا کو دین کیلئے اور دین کو دنیا کیلئے استعمال مت کریں کیونکہ بڑے حساب کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی دنیاوی فتوحات کو دین کے مقابلے میں پیش کرکے خود کو فاتح ثابت نہیں کر سکو گے۔o اگر ہمارے دکھ اور خسارے ہماری آزمائش نہیں ہیں تو پھر یہ یقینا ہماری ناشکری اور بدنیتی کے گستاخ اور باغی لمحے ہیں جن کو حکم ربی کے تحت پابجو لان کرکے ہمارے سامنے ساکت کر دیا جاتا ہے کہ اب بطور سزا ساری عمر ان سے سر ٹکراتے رہو اور شکست کھاتے رہو سو ناشکری کے گناہ سے بچنے پر سارا زور لگا دیں۔ دوسری دنیا کے حساب میں آپ کا منافع اصل زر سے بڑھ رہا ہے۔ oجس دل میں روضہ رسول اکرم ٹھہر جائے اس میں غصہ، انتقام، حسد اور بدی نہیں ٹھہر سکتے۔ oجس کو حب رسول میسر ہو جائے اسے کسی دوسرے رشتے یا دولت کی کیا ضرورت ہے؟ oدل میں خود اعتمادی کا بیج ڈال دیں بہت جلد اس میں سے کامیابیوں کا پھل دار درخت اُگ آئیگا۔o زندگی ایک مشن ہے مشین نہیں ہے۔o اگرچہ سچ زہر کی طرح کڑوا ہوتا ہے لیکن یہ زہر سچائی کی بقاءکیلئے امرت کا درجہ رکھتا ہے۔oآپ کو کسی کا جبر نہیں توڑ سکتا صرف اپنی بے صبری توڑ سکتی ہے۔oکھری عبادت وہ ہے جو پہلے آپ کی عادت بن جائے پھر مجبوری، اسکے بعد لذت اور آخر کار انتظار بن جائے مگر یہ انتظار بہت زور مانگتا ہے۔o ساری دنیا کی افراتفری اور انتشار غلط کو ٹھیک اور ٹھیک کو غلط کہنے کی وجہ سے ہے غلط کو غلط اور ٹھیک کو ٹھیک کہنے کی جرا¿ت کسی میں نہیں ہے۔ oحیرت ہے ایک گناہ کی پانچ سزائیں مقرر ہیں پھر بھی اسے انسان ایک سمجھ کر کیے جاتا ہے۔ -1ضمیر کی چبھن -2 زمانے کی نفرت -3 قانون کی سزا -4 دنیاوی عذاب -5 جہنم کی آگ۔ oانسان کی ناکامی کا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ تقدیر یا تدبیر دونوں میں ایک پر سے مکمل طور پر اعتماد اٹھا لیتا ہے۔ جس طرح سیڑھیاں چڑھنا مشکل اور اترنا آسان ہوتا ہے اسی طرح آپ کا کسی کے دل و دماغ میں اونچا مقام بنانا بھی حد درجہ مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ کوشش کیجئے کہ اپنی کسی حرکت سے یہ مقام ضائع نہ کر دیں ورنہ جس تیزی سے آپ بلندی پر پہنچے تھے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے آپ ان کے دل و دماغ سے اتر بھی سکتے ہیں۔ oجب بھی وقت ملے اور جس قدر بھی ممکن ہو سکے نیکی اور نیکی جذبوں کی انوسٹمنٹ کرتے رہیں یہ سوچے بغیر کہ آپ کو اس دنیا میں اس کا کتنا منافع ملے گا دوسری دنیا کے حساب میں آپ کا منافع اصل زر سے زیادہ بڑھ رہا ہے۔oخود کو ہر وقت بلند پروازی میں محو سمجھنے، اوپر ہی اوپر دیکھنے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے والوں کو بعض اوقات پاﺅں میں آئے ہوئے حقیر سے پتھر کی ٹھوکر بھی گرا دیتی ہے۔ یہ ٹھوکر آپ اسے نہیں مارتے بلکہ وہ آپ کو مارتا ہے اور اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے۔ oزندگی میں کامیابی کی راہ پر بڑھنے کےلئے پانچ باتیں ذہن میں رکھئے:
-1 بدی کبھی نیکی پر غالب نہیں آ سکتی -2 جھوٹ سچ کو نہیں کھا سکتا -3کھرے پن کو اُلی نہیں لگتی -4 انسان کی اندرونی اور بیرونی بدصورتی ہزار ملمع کے باوجود حسن نہیں کہلاتی -5 اخلاقی کمزوری اخلاقی طاقت کو تباہ نہیں کر سکتی۔سچ اور جھوٹ کا اس سے بڑھ کر فائدہ اور نقصان کیا ہو سکتا ہے کہ دونوں بہرصورت ظاہر ہو کر رہتے ہیں۔ oعبادت انسان کی محض ذات سنوارنے کےلئے ہے جبکہ بندوں سے پیار اللہ تعالیٰ کا بندوں پر ادھار ہے جس سے بچاﺅں ممکن نہیں ہو گا۔ oزندگی میں ناکامیوں سے گھبرانا بزدلی ہی نہیں صحافت بھی ہے یہ دراصل آپ کو آگے بڑھانے کےلئے پیچھے سے پُش کرنے آتی ہیں جس طرح آپ کسی دروازے میں داخل ہونے کےلئے اسے پُش کرتے ہیں۔ oکبھی کسی کو اپنی کمزوری مت بتائیں ورنہ بوقت ضرورت اگر اس سے زہر مانگیں گے تو وہ آپ کو تریاق لا دےگا۔ oجس طرح ایک جھوٹ کو چھپانے کےلئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اسی طرح آپ جب ایک بار منافقت کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو پہلی منافقت کو چھپانے کےلئے آپ کو بار بار دوسری منافقت کرنی پڑتی ہے لہذا ہمیشہ پہلے جھوٹ اور پہلی منافقت سے بچیں۔ oبرائی کے ختم نہ ہونے کی بنیادی وجہ برائی کو برا نہ سمجھنا بھی ہے۔ سو ہمیشہ برائی کو پوری قوت سے رد کردیں تب ہی بچ سکیں گے۔