غریب پھلوں کا بائیکاٹ

Jun 07, 2017

ڈاکٹر تنویر حسین

میرے پیارے بیٹے عاطف!
اسلام علیکم! مائی ڈیئر! آج کل ہمارے معاشرے میں بیداری کی لہر آئی ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں بیداری کی لہر اچانک آتی ہے اور پھرگہری نیند میں خراٹے ینے کی لہر بھی فوراً آ جاتی ہے۔ بہرحال آج کل ہم مسلمان جس مسئلے پر بیدار ہوتے ہیں، ہ مسئلہ پھل ہے۔ بیٹے! سب سے پہلے لفظ ”پھل“ کی تعریف سن لو۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ محنت مزدوری کرتا ہے، خون پسینہ ایک کرتا ہے لیکن وہ اپنی مزدوری اور محنت کے عوض صرف دو وقت کی روٹی کماتا ہے۔ یہ کبھی نہیں سنا کہ مزدور نے محنت مزدوری کرکے دو وقت کا پھل خرید لیا ہے۔ ہمایر حکومتیں ہمیشہ مزدور کو روٹی دینے کی کوشش کرتی ہیں، اس کو پھل دینے کے کوئی کوشش نہیں کرتیں۔ شاید ہمارے ہاں مزدور کی قسمت میں پھل لکھا ہی نہیں۔
ہمارے لوگوں نے ایک دوسرے کے شعور کو جگانے کے لئے پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم چلانے پر زور دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب وہ پھل نہیں خریدیں گے تو پھل خود بخود ان کی جھولیوں میں آن گریں گے۔ بیٹے! ہمارے ہاں کاروبار زیادہ تر حاجی لوگوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ اس لئے ہم گاہک لوگ ان حاجی صاحبان کے دست حق پرست پر بیعت ہوتے ہیں۔ ہم جب حاجی صاحبان کی دکانوں سے کوئی چیز خریدتے ہیں تو ایک ایسی روحانی خوشی محسوس کرتے ہیں جو ایک مرید کو اپنے پیر کے آستانے پر حاضری دینے سے ہوتی ہے۔ ہم گاہکوں کا ایمان ہوتا ہے کہ حاجی صاحب قیمت اپنی مرضی کی لگائیں گے اور چیز کی کوالٹی پر کوئی انگشت نہیں رکھ سکے گا۔ میرے بیٹے! یہ لوگ جو اپنے تیئں باشعور سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ چار دن کے لئے پھل خریدنا بند کر دو، یہ دراصل اپنی، تمہاری اور پورے معاشرے کی صحت کے دشمن ہیں۔ بیٹے! تم نے پھلوںکا بائیکاٹ کرنے کی غلطی نہیں کرنی۔ پھلوں کے بائیکاٹ سے پھل اور پھل فروش حاجی صاحبان کا کیا جائے گا، تم اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھو گے بلکہ روزہ رکھ کر وقت افطار پھل نہ کھانے سے جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اخبارات میں ترقی یافتہ ممالک میں مختلف انسانوں پر مختلف تجربات کئے جاتے ہیں۔ ہم ترقی یافتہ ممالک کی مثال کیوں سامنے رکھیں۔ کل ہمارا ایک دوست بتا رہا تھا کہ ان کے ابا جان نوے سال کی عمر کو چھو رہے ہیں لیکن وہ گھر کی تیسری منزل تک جانے کے لئے نوجوانوں کی طرح سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔
سیڑھیاں چڑھنے کے پیچھے ان کی کیلوں سے رغبت ہے۔ ہمارے دوست کے والد محترم کیلوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ کیلوں سے پیار کرو، یہ آپ کی ہڈیوں کے رفیق ہیں۔ ہمارے دوست کے والد صاحب گھر سے کیلے ختم نہیں ہونے دیتے۔ وہ رات کے بارہ بجے بھی اپنے بیٹے کو کیلے لانے کا حکم صادر فرما دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ برگروں سے پیار کرتے ہیں، پیزوں کی محبت میں گرفتار رہتے ہیں، شوارموں کے عشاق کی بھی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ اس طرح رمضان شریف میں پکوڑوں اور سموسوں کے عاشق وطن عزیز کے چپے چپے پر پائے جاتے ہیں۔ ان تمام چٹ پٹی چیزوں کے عوض ہم اپنی کھالی بھی اترواتے ہیں اور صحت بھی گنواتے ہیں۔
ہمارے ہاں سموسوں، کچوریوں اور پکوڑوں کی اتنی قدروقیمت ہے کہ ان کے رسیا چن چن کر اپنے دستر خوانوں کی زینت بناتے ہیں۔
پیارے بیٹے! ہمارے لوگوں کی نفسیات یہ ہے کہ پہنا ہوا نظر آتا ہے، کھایا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس لئے یہ پھلوں کا بائیکاٹ کرنے میں پیش پیش ہیں جب کہ
کپڑوں کے مہنگے مہنگے برانڈوں پر قیمت کا سٹکر دیکھ کر فوراً اپنی جیب میں ہاتھ ڈال لیتے ہیں۔ ہمارے یہ لوگ پھل فروش کی ریڑھی پر کمی بیشی کی خاطر تکرار بلکہ توتکار کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ صابن دانی گاڑی خریدتے ہوئے دس بارہ لاکھ مٹھائی کے ساتھ فوراً ادا کر دیتے ہیں۔ صابن دانی گاڑی کا کبھی بائیکاٹ نہیں کریں گے لیکن دس بارہ روپے کلو تربوز کا بائیکاٹ کر دیں گے۔
پیارے بیٹے! ہمارے ملک میں پھل تو غریب کی پہنچ سے ہمیشہ دور ہی رہے ہیں۔ ہم نے راہ چلتے غریبوں کو شہتوت توڑتے، جامن چننے اور زمین پر گرے آم اٹھاتے دیکھا ہے۔ پھل تو امیروں کا میوہ ہے۔ ہمارے محلے کے ایک عام آدمی نے یہ روٹین بنا لیا کہ ہر دو گھنٹے بعد بازار جاتا اور پھل فروش سے مختلف پھلوں کی قیمتیں پوچھتا۔ قیمتیں جوں کی توں قائم رہتیں۔ اس طرح ہمارے محلے دار نے پھلوں کی قیمتیں دریافت کرنے میں بہت مچنت کی اور اسے اپنی محنت کا کوئی پھل نہ ملا۔
پیارے بیٹے! اشیا کی گرانی اور اس قسم کے دیگر مسائل پر حکومت کی آنکھ ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پھلوں کی گرانی کے حوالے سے حکومت کی آنکھ بند نظر آتی ہے یا پھر حکومت نے جان بوجھ کر آنکھ بد کر لی ہے۔ حکومت نے سوچا ہو کہ کہ پھلوں کا مسئلہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔
پیارے عوام! تمہیں کیا معلوم مسائل کیا ہوتے ہیں۔ ہمارے مسائل دیکھیں ہمیں پانامہ کیس کا سامنا ہے۔ اوپر سے نہال ہاشمی نے ہمارے مسائل میں خواہ مخواہ اضافہ کر دیا ہے۔ اگر نہال ہاشمی کی زبان بتیس دانتوں میں رہتی تو کیا ہی اچھا تھا۔

مزیدخبریں