نائن الیون کے بعد عالم اسلام کو دہشت گردی کے عفریت نے جکڑ لیا ۔ اس واقعہ کی آڑ میں پر امن اقلیتی اکائیوں کے خلاف غیر انسانی کارروائیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ۔ جو آج تک جاری ہے ۔ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ نے مذہبی تعصب کی بنیاد پر اپنے ہی شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ۔ ان کے جائز ذرائع سے کمائی گئی دولت کو اپنے قبضے میں لیتے ہوئے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرائے گئے ۔ ان پر جسمانی اور نفسیاتی بدترین سزاﺅں کے ساتھ قید تنہائی کو مسلط کیا گیا ۔ میرے آج کے کالم کا موضوع ایک ایسے پاکستانی بہادر مسلمان کی کہانی ہے جو دنیا کی سپر پاور امریکہ کے مذہبی تعصب ، مسلمان دشمنی ، دہشت گردی ، لاقانونیت اور ناانصافی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ جس پر مملکت خداداد سے محبت کرنے کے جرم کی پاداش میں گوانتاناموبے جیل میں قید تنہائی مسلط کی گئی ہے ۔
45 سالہ ملک خالد قیوم اعوان کا تعلق پاکستان کے شہر خوشاب سے ہے ۔ یہ تین بہنوں کا اکلوتا اور بڑا بھائی ہونے کی وجہ سے اپنے گھر کا سربراہ بھی ہے ۔ یہ پاکستان میں انکم ٹیکس شعبہ میں انسپکٹر رہے اور بعد ازاں وکالت کے شعبہ سے بھی منسلک رہے ۔ بدقسمتی سے جب امریکہ میں 9-11 کا بدترین واقعہ پیش آیا تو اس وقت مسلمان کینیڈین پاکستانی خالد اعوان نیویارک میں امیگریشن کنسلٹنٹ تھے ۔ انہیں دیگر افراد کے ہمراہ نیو یارک سے حملوں کے واقعات کی تفتیش کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ۔ انہیں 9-11 کے واقعات کے اہم گواہ کے طور پر حراست میں لیا گیا ۔ ہائی جیکر سے رابطے کے من گھڑت الزامات بھی لگائے گئے ۔ دوران تفتیش پولیس نے مشرقی نیویارک میں واقع جب ان کے گھر کی تلاشی لی تو انہیں خالد اعوان کی فیملی کے باقی افراد کے پاسپورٹ اور کریڈٹ کارڈ ملے جس کی بنیاد پر امریکی حکام نے انہیں کینیڈین شہریت کے حصول کے لئے آنے والے امیگرنٹس کی شناخت چوری کرنے اور ان کے ناجائز استعمال کے جرم کی سزا دی گئی ۔ امریکی حکام جب خالد اعوان کا تعلق القاعدہ سے ثابت کرنے میں ناکام رہے تو صرف مذہبی تعصب کی بنیاد پر پے در پے من گھڑت کیسز کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا گیا ۔ خالد اعوان کو ڈراتے دھمکاتے ہوئے ان سے بدترین غیر انسانی سلوک کیا جاتا ۔ بدترین تشدد سے انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کینیڈا میں مقیم اپنے خاندان کے بارے میں معلومات فراہم کرے ۔ معلومات فراہم نہ کرنے اور جرائم کا اعتراف نہ کرنے پر انہیں جان لیوا انجکشن لگانے کی دھمکی دی جاتی ۔ یہاں تک کہ خالد اعوان کو ناکردہ جرائم کا اعتراف اپنے خاندان کے باقی افراد کو بچانے کے لئے بھی کرنا پڑا ۔
2006 ءمیں جب کریڈٹ کارڈوں کے فراڈ کی سزا ختم ہونے والی تھی تو ان پر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی مالی امداد کرنے کے نئے الزامات سامنے لائے گئے ۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ ان کے Paramjit Singh Panjwar کے ساتھ ذاتی تعلق ہیں جو بھارت میں علیحدگی پسند سکھوں کی تنظیم ” خالصتان کمانڈو فورس “ کے راہنما ہیں ۔ خالداعوان پر الزام لگایا گیا کہ وہ KFC کو ہندوستان حکومت کے خلاف مالی معاونت کرتے ہیں ۔ جبکہ خالد اعوان کے وکیل نے بتایا کہ امریکی حکام نے یہ اقدام صرف انڈین لابی کو خوش کرنے کے لئے اٹھایا ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ امریکی حکام کو پنجوار یا KFC کو فنڈ فراہم کرنے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملے جس کا اعتراف خود جج نے بھی کیا ۔ یہ صرف کینہ پروری ، اشتعال انگیزی اور مضحکہ خیزی کے سوا کچھ نہ تھا ۔ جبری اعتراف کے بعد خالد اعوان کو اس کیس میں سزا سنائی گئی ۔ انہیں سفاکانہ اور الگ تھلک حالات کے تحت قید کیا گیا ۔ دراصل سترہ سالوں سے اس قید کے پیچھے چھپے حقائق یہ ہیں کہ دوران تفتیش امریکی حکام کے سامنے یہ بات آئی کہ خالد اعوان کے پاکستان آرمی آفیسرز اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے آفیسرز کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں ۔ یہ شواہد امریکی حکام کو خالد اعوان کی فیملی تصاویر سے حاصل ہوئے ۔ امریکی حکام ایسے بہادر ، ذہین شخص کو دنیا کی بہترین فوج کے خلاف اپنا جاسوس بنا کر پاکستان بھیجنا چاہتے تھے ۔ خالد اعوان کے وکیل نے ان کی ہمشیرہ کو بتایا کہ جب ایک کیس کی سزا ختم ہوتی ہے تو دوسرا کیس بنانے سے پہلے خالد اعوان کو اس آفر کے لئے منانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر وہ پاکستان میں امریکن ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کی آفر قبول کر لے تو اس کے تمام کیسز ختم کر دیئے جائیں گے ۔ لیکن خالد اعوان کا کہنا ہے کہ دھرتی ماں کے خلاف استعمال ہونے سے بہتر ہے کہ وہ گوانتاناموبے جیل میں ہی موت کو ترجیح دیں ۔ بعد ازاں خالد اعوان کی ہمشیرہ راحیلہ ارشد سے تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 17 سال سے اپنے بھائی کی رہائی کا انتظار کر رہی ہے ۔ ہمارے بھائی کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ امریکی حکام کی پاکستان کے خلاف جاسوس بننے کی آفر کو قبول نہیں کر رہے ۔ اپنے بھائی کو اغیار کے شکنجے میں ظلم و ستم سہتا دیکھ کر ہم روز مرتے ہیں روز جیتے ہیں ۔ انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست پاکستان کے حکام اور اداروں کے سربراہان کو اس بات کی خبر ہی نہیں کہ مملکت خداداد کی خاطر ہمارا اکلوتا بھائی دنیا کی بدترین جیل گوانتاناموبے میں قید تنہائی کاٹ رہا ہے ۔ جہاں اس کے ساتھ بدترین غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے ۔ میرے ایک سوال کے جواب میں ان کی ہمشیرہ نے بتایا کہ کینڈا کی پولیس اور حکام نے ان کے ساتھ بہت تعاون کیا ۔ کینیڈا کا شہری ہونے کی وجہ سے ان کی مالی معاونت بھی کی گئی اور انہیں جانی تحفظ فراہم کیا گیا ۔ کینیڈا کے اداروں اور حکام کے تعاون کی وجہ سے انہوں نے امید کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے وکیل کا کہنا ہے اسی سال جون کے وسط میں خالد اعوان پر تمام کیسز کی سزائیں ختم ہو رہی ہیں اور جلد ہی ان کی رہائی متوقع ہے ۔
ایک طرف مملکت خداداد پاکستان پر قابض مخصوص طبقہ جو اداروں کو کمزور کرنے ، غریب عوام کا خون نچوڑنے ، ملکی خزانوں کو لوٹنے میں مصروف عمل ہے جن کی وطن غداری کا یہ عالم ہے کہ اگر ادارے ان کے راستے میں رکاوٹ نہ ہوں تو یہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئے وطن عزیز کو اغیار کے ہاتھوں فروخت ہی کر دیں ۔ جبکہ دوسری طرف وطن کی بیٹی عافیہ صدیقی اور خالد اعوان جیسے حب وطن مسلمان جو اس قوم اور ملک کے سر کا تاج اور ماتھے کا جھومر ہیں دیار غیر میں خدا جانے کس کس قرب سے گزر رہے ہیں ۔ یہ ایک خالد اعوان کی کہانی ہے ۔ خدا جانے کتنے خالد اعوان اس دھرتی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر چکے ہوں گے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کم و بیش سترہ سال بدترین قید کاٹنے والا خالد اعوان جب پاکستان لوٹایا جائے گا تو ریاست پاکستان اسے کس طرح نوازتی ہے ؟ میں اس کالم کے ذریعے آرمی چیف سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ مملکت خداداد کے خلاف دشمن طاقتوں کے ہاتھوں کھیلنے کی بجائے قید کو ترجیح دینے والے خالد اعوان کو بہترین ایوارڈ سے نوازے تاکہ ہم دنیا میں ایک اچھا تاثر قائم کر سکیں ۔