الطاف مجاہد
سندھ میں افطار پارٹیوں اور پرانی تعزیتوں پر فاتحہ خوانی کا دور دورہ ہے۔ وڈیرے اور امیدوار گاڑیوںکے قافلوں کے ہمراہ ہمدردیوںکا اظہا کرنے گھر گھر بلکہ در در پہنچ رہے ہیں۔ ایسے میں سیاسی پرندوں کی آمدورفت بھی عروج پر ہے۔ یومیہ بنیادوں پر وفاداریاں تبدیل ہو رہی ہیں۔ فہمیدہ مرزا اور ذوالفقار مرزا نے پیر پگاڑو کی موجودگی میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں شمولیت اختیا کی تو پیپلزپارٹی کی دس سالہ کارکردگی پر انگشت نمائی کی۔ اسی روز نوید قمر و دیگر نے انہیں چیلنج کیا کہ پانچ برس تو وہ سپیکر قومی اسمبلی رہیں‘ ان کے شہر سندھ میں آصف زرداری کے بعد سب سے طاقتور شخصیت تھے۔ بیٹے سندھ اسمبلی کے رکن‘ لیاری امن کمیٹی کی سرپرستی‘ اسلحہ لائسنسوں کے اجرا پر کراچی کی بعض تنظیموں نے بھی سوالات اٹھائے۔ لیاری گینگ وار کے حوالے سے ذوالفقار مرزا ہمیشہ تنقید کی زد میںرہے ہیں۔ پھر متحدہ کے سابق ایم این اے رشید گوڈیل نے پی ٹی آئی جوائن کر لی اور ٹکٹ نہ ملنے پر معروف اینکر عامر لیاقت نے فردوس شمیم بقعوی سمیت تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کو ٹوئٹر پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ گھوٹکی کا ہر خاندان ساڑھے تین عشروں سے اکٹھا رہا ہے۔ اسی اتحاد کی بنیاد پر علی محمد مہر وزیراعلیٰ بنے۔ ضیاء دور میں حکومت کی قرابت سمیٹی اور پی پی‘ (ن) لیگ‘ (ق) لیگ اور فنکشنل لیگ کے لاڈلے کہلائے۔ اب یہ خاندان منشتر ہے۔ مرحوم چیف سردار غلام محمد مہر کے صاحبزادے محمد بخش مہر پی پی قیادت کے قریب ہیںاور ان کے کزن علی انور مہر کے بیٹے علی گوہر مہر جی ڈی اے کا حصہ ۔ علی گوہر کے دو بھائی علی محمد مہر اور راجا خان مہر بین بین ہیں۔ خاندان کا سیاسی اختلاف اسی ضلع میں بوند بوزدار‘ پتافی‘ ڈاہر‘ دھاریجو چاچڑ‘ عالمانی‘ شر قبائل اور پھر چونڈی پیروں کا قد کاٹھ بڑھا دے گا۔ ہر عروج راز والے کے مصداق مہر قبیلے اور خانگڑھ پیلس کو آنے والے دن مشکلات میں گھرے نظر آرہے ہیں‘ لیکن وہ بھی کیا کریں۔ امارات کے شہزادوں کی دوستی نے انہیں بھی انا پرست بنا دیا ہے اور الیکشن 2018ء میں بہت سے غرور سندھ میں ملیا میٹ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ نوازشریفثنے نواب شاہ کا دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ اب (ن) لیگ کراچی میں ہر نشست پر اور صوبے بھر میں متعدد حلقوں سے انتخاب لڑنے کی خواہاں ہے‘ لیکن جو نام سامنے آئے ہیں ان میں کوئی الیکٹ ایبل نہیں بالخصوص اسد جونیجو‘ شاہ محمد شاہ دیگر ہمیشہ شکست خورہ رہے ہیں۔ کراچی سے کشمور تک پھیلے سندھ کو (ن) لیگ نے گزشتہ دس برس میں سیاسی طورپر نظرانداز کیا اور ممتاز بھٹو‘ لیاقت جتوئی‘ ارباب رحیم‘ غوث علی شاہ‘ اسماعیل راہو سمیت ان تمام رہنمائوں کو چھڑ دیا جو کم از کم موجودہ (ن) لیگی قیادت سے زیادہ اثرورسوخ رکھتے تھے اور اب بھی اپنے اپنے اضلاع میں پاور فل ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ارباب رحیم سے ملاقات کے بعد ٹھٹھہ کے سیکرٹری اور ٹنڈو محمد کے مگسان (ن) لیگ کیٹکٹ کی بجائے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کو ترجیح دیں گے۔ گرینڈ ڈیموکریٹک
الائنس کی قیادت پیر پگارا اور سیکرٹری شپ ایاز لطیف پلیجو کے پاس ہے۔ اس میں ذوالفقار مرزا، ارباب رحیم، غوث علی شاہ، ڈاکٹر صفدر عباسی، ناہید خان سمیت متعدد اہم سیاست دان اور جماعت شامل ہیں۔ اب اطلاعات یہ ہیں کہ یہ اتحاد متحدہ قومی موومنٹ ، پی ایس پی، تحریک انصاف سے رابطے میں ہے تاکہ سندھ میں پی پی کو ون ٹو ون کی سطح پر لا کر چیلنج کیا جا سکے۔ آصف زرداری نے نواب شاہ اور بلاول بھٹو نے لاڑکانہ سے انتخاب لڑنے کا جو اعلان کیا ہے تو سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ قادر مگسی اورراشدسومرو نے جوجمعیت علمائے اسلام سندھ کے جنرل سیکرٹری ہیں بالترتیب دونوں شخصیات کے مقابلے میں اترنے کا اعلان کیا ہے۔ مقابلہ ون ٹو ون ہوا تو پی پی کیلئے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی‘ لیکن جی ڈی اے، جے یو آئی، سندھی قوم پرست اور آزاد امیدوار بشمول تحریک انصاف میدان میں موجود رہی تو تیر کی کامیابی کچھ مشکل نہ ہو گی کہ ان حلقوں سے عذرا فضل پلیجوہو اور فریال تالپور جو دونوں آصف زرداری کی بہنیں ہیں۔ کئی انتخابات جیتتی آ رہی ہیں۔ متحدہ فاروق ستار کا بائیکاٹ بھی متحدہ بہادر آباد کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ کہ اس طرح شہری ووٹ بنک میں مایوسی پھیلے گی اور فائدہ پاک سرزمین پارٹی، تحریک انصاف اور پی ٹی آئی و پیپلزپارٹی کو پہنچے گا۔ حرف آخر یہ کہ سروری جماعت کے روحانی پیشوا مخدوم جمیل الزمان سے آصف زرداری کی ملاقات کامیاب بتائی گئی ہے۔ چند مزید نشستیں اور آئندہ سیٹ اپ میں اختیارات پر سمجھوتہ ہو گیا ہے اور ہالہ حویلی نے بلاول ہائوس سے دوری کا ارادہ ترک کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ مخدوم فیملی اپنے آبائی ضلع مٹیاری میں لاہو اور جاموٹ خاندان کی پی پی قیادت سے قربت پر خوش نہیں ایسے لگتا ہے کہ سروری جماعت کو نیچا دکھانے کیلئے سیاسی متبادل تلاش کیا گیا ہے۔ آنے والے دن سندھ میں خاصے اہم ہیں بالخصوص حلیف اورحریف بدلنے کی توقع ہے۔
گھوٹکی کا مہر خاندان چار عشروں بعد اختلافات کا شکار
Jun 07, 2018