فرخ سعید خواجہ
الیکشن 2018ء کیلئے طبل جنگ بج چکا ہے، الیکشن کمشن کے جاری کردہ شیڈول پر عملدرآمد جاری ہے۔ مرکز، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں نگران حکومتیں حلف اٹھا چکی ہیں، آنے والے چند دنوں میں پنجاب اور بلوچستان کی نگران حکومتیں بھی آ جائیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انتخابی ماحول میں جج، جرنیل اورجرنلسٹ بہت اہمیت حاصل کر گئے ہیں۔ عام تاثر یہی ہے کہ ’’تینوں‘‘ آنے والے الیکشن پر خاصے اثرانداز ہوں گے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی شہباز شریف کی قیادت میں صوبائی حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر چکی ہے اورنگران حکومت کے آنے سے پہلے میاں شہباز شریف حکومت کی نگرانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
جہاں ایک طرف سیاسی جماعتوں کے قائم کردہ پارلیمانی بورڈ اپنی اپنی جماعتوں کے امیدواروں کے چنائو کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں وہاں سیاسی رہنمائوں کی طرف سے اپنی اپنی حکومتی کارکردگی پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مخالفین پر لفظی گولہ باری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے حکومت سے جاتے جاتے مسلم لیگ (ن) کی مرکز اور پنجاب میں پانچ سالہ حکومتی کارکردگی کے حوالے سے مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کی۔ اُن کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) کے سنیٹر مشاہد حسین سید، سابق وفاقی و صوبائی وزراء مریم اورنگ زیب ، رانا ثناء اللہ خان، خواجہ سلمان رفیق، رانا مشہود احمد خان اور خواجہ عمران نذیر موجود تھے۔ اُن کے سامنے اخبارات کے ایڈیٹر ، کالم نگار، رپورٹر اور الیکٹرونک میڈیا کے اینکر پرسن و رپورٹروں کے علاوہ سینئر صحافیوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ میاں شہباز شریف نے اپنی گفتگو کا آغاز خوشگوار لہجے میں کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی حکومت کی آئینی مدت پوری کر چکے ہیں اور اب نگران حکومت آنے سے پہلے نگرانی کا فریضہ سرانجام د ے رہے ہیں۔ اس لئے پریس کانفرنس یہاں ہوٹل میں رکھی کہ سرکاری وسائل استعمال نہ کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت آنے کے بعد میں آزاد پنچھی ہوں گا اور ہمیں عوامی خدمت کا جو مینڈیٹ ملا تھا اس میں ہم نے جو کچھ کیا اب اس کے بہترین جج عوام ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن 2018ء کے انعقاد کی تیاری ہو چکی ہے اور ہم اس میں بھرپورحصہ لیں گے۔ میاں شہباز شریف نے مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کی توانائی بحران حل کرنے کے لئے بارآور کوششوں، دہشت گردی میں کمی کے ساتھ پاکستان میں معاشی استحکام لانے کو بڑی کامیابی قرار دیا۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ عمران نیازی کے دھرنوں، منفی سیاست اور رکاوٹوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملک کوترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں کامیاب رہی۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی بھونڈے الزامات لگاتی رہی اور ہم عوام کی خدمت کرتے رہے۔ انہوں نے عوام کو دعوت دی کہ وہ مسلم لیگ (ن) حکومت کی کارکردگی کا موازنہ مخالفین سے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے پنجاب کے بجلی کے لگائے گئے منصوبوں کا تفصیل سے ذکر کیا اور کہا کہ پنجاب نے قومی یک جہتی کا شاندار عملی مظاہرہ کیا ہے، پنجاب حکومت کی پیدا کردہ پانچ ہزار میگاواٹ بجلی پورے پاکستان کو مل رہی ہے کہ ہمیں ہر چیز پر پاکستان کا مفاد مقدم ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان پانچ ہزار میگاواٹ کو پنجاب تک ہی محدود رکھا جاتا تو پنجاب میں ایک منٹ کی بھی لوڈشیڈنگ باقی نہ رہتی۔ انہوں نے مخالفین کی جانب سے پروپیگنڈہ کہ ہماری ترجیحات میں تعلیم شامل نہیں تھی کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ہم نے پنجاب میں 200 نئے کالج اور 19 یونیورسٹیاں بنائیں ہیں، میڈیکل کالج، ہسپتال اور ٹیکنیکل یونیورسٹی بھی بنائی گئی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے تعلیم ، صحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معیشت کے میدان میں بھارت کا مقابلہ کرنا ہے اور اسے شکست دینا ہے۔ شہباز شریف نے عوامی فلاحی منصوبے اورنج لائن ٹرین کی تکمیل میں 22 ماہ کی تاخیر کا ذمہ دار پی ٹی آئی کو ٹھہرایا۔ انہوں نے پرویز مشرف، آصف زرداری کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ مشرف نے دیامیر بھاشا ڈیم کے نام پر قوم سے ڈرامہ کیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 100 ارب روپے سے بھاشا ڈیم کیلئے زمین خریدی۔ زرداری صاحب کے 60 ملین ڈالر سوئس بنک میں پڑے ہونے کا ذکر بھی کیا اور پوچھا کہ کیا اُن سے کسی نے اس بارے میں پوچھا؟ کیا نیب نے ان سے پوچھا؟ شہباز شریف نے کہا کہ جس قوم کی دولت لٹ گئی ہو اور احتساب کا عمل شفاف نہ ہو وہ قوم ترقی نہیں کرے گی۔ سوال و جواب کی نشست میں سیاسی و عسکری قیادت کے تعلقات کے بارے میں تندوتیز سوالات ہوئے جن کے جواب میںانہوں نے کہاکہ سیاسی و عسکری قیادت کے متفقہ فیصلوں اور آپریشن ضرب عضب ، ردالفساد کے تحت پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیوں کے باعث امن ہوا۔
میاں شہباز شریف نے صحافیوں کے سامنے اپنا مقدمہ انتہائی جوش و خروش کے ساتھ لڑا۔ پریس کانفرنس کے دوران وہ کئی مرتبہ جذبات سے مغلوب ہوئے اور اس کا مزا صحافیوں کیساتھ ساتھ خود انہوں نے بھی لیا۔ اُن کے جواب میں پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے صدر عبدالعلیم خان و دیگر نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور حکومتوں کی گوشمالی کی لیکن یہ حقیقت ہے کہ الزام تراشی کے اس ماحول کے باوجود چاروں صوبوں کے عوام ووٹ ڈالتے ہوئے جہاں دیگر عوامل سے متاثر ہوں گے وہاں پنجاب مرکز میں مسلم لیگ (ن) سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کی پانچ سالہ کارکردگی کاموازنہ بھی کریں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اصل جج عوام ہیں اور اُن کا ووٹ ہی کسی کی کارکردگی کا فیصلہ کرے گا۔ جہاں تک سیاسی ماحول کا تعلق ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی طرف سے ٹف ٹائم مل رہا ہے جسے مسلم لیگ (ن) کے قائدین پری پول رگنگ قرار دے رہے ہیں البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) تمام تر حالات کے باوجود سب سے آگے محسوس ہوتی ہے جبکہ اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے پی ٹی آئی میدان میں موجود ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے لئے الیکشن 2018ء بہترین موقع ہیں کہ وہ کامیاب ہو کر ملک کو متبادل قیادت دے سکتے ہیں۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بلاشبہ سندھ کی حد تک مقبول سیاسی شخصیات ہیں لیکن پنجاب میں اُن کا دیاجلتا دکھائی نہیں دیتا البتہ اُن کے پاس ایک راستہ موجود ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ انتخاب اتحاد بنا کر یا اشتراک عمل کر کے مسلم لیگ (ن) کے کامیابی کے سکور کو کم کرنے میںکامیاب ہو جائیں۔ دینی سیاسی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل اور حال ہی میں قائم ہونے والی ملی مسلم لیگ ، تحریک لبیک یا رسول اللہ کا بھی الیکشن 2018ء سیاسی امتحان ہوں گے کہ وہ اپنے کس قدر امیدواروں کو کامیاب کروا سکتے ہیں جبکہ یہ بھی دیکھنے والی بات ہو گی کہ وہ کتنے قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں اپنے ووٹوں سے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کونقصان پہنچا کر اُن کی کامیابی کے آگے بند باندھنے میں کامیاب رہتی ہیں۔