۴۔یا علی تم ہادی ہو۔ میرے بعد راہ پانے والے تم سے راہ پائیں گے( تفسیر کبیر)
۵۔علیؓ سے گفتگو کے بعد فرمایا میں سرگوشی نہیں کی لیکن اللہ تعالیٰ نے علیؓ سے سرگوشی کی۔
۶۔الٰہی مجھے موت نہ دینا حتی کہ مجھے علی کو دکھا نہ دے۔
۷۔جس نے علی کو برا کہا اس نے مجھے برا کہا۔
۸۔علی جنت دوزخ تقسیم کرنے والے ہیں۔
۹۔جس کا میں مولیٰ اس کا علی مولیٰ ہیں۔ ( یعنی مولائے کائنات)
۱۰۔میرا پیغام کوئی نہیں پہنچائے گا مگر میں اور علی (امجد بن سلیمان، اسماعیل، خصائص نسائی)
وہ علی کرم اللہ وجہ الکریم جن کے متعلق صحابہ کرام یہ فرمائیں۔ علی نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہو جاتا
۱۔یا ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مبارک ہو آپ نے صبح سویرا اس طرح پایا کہ ہر مومن مرد عورت کے مولیٰ ہو۔
۲۔اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمر تباہ ہو جاتا ( لولاعلی لھلک عمر) ( کتاب الاستیعاب، ج ۲، ص ۴۶۱)
۳۔یا اللہ عمر وہاں نہ ہو جہاں علی نہ ہو ( تاریخ الخلفاء ص ۱۷۱)
۴۔ابویعلی حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓنے ارشاد فرمایا کہ حضرت علیؓ کو تین ایسی فضیلتیں ملی ہیں اگر مجھے ان میں سے ایک بھی مل جاتی تمام دنیا سے محبوب ہوتی۔ لوگوں نے دریافت کیا وہ کیا فضائل ہیں ۔ فرمایا اول رسول کریمؐ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح کیا۔ دوم آپ ؐ نے دونوں کو مسجد میں رکھا اور جو کچھ ان کو وہاں حلال ہے مجھے حلال نہیں۔ تیسرے جنگ خیبر میں علم ان کو عطا فرمایا ( تاریخ الخلفاء ص۲۵۹)
۵۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مال غنیمت بانٹتے ہوئے اپنے بیٹے کے اس سوال کے جواب میں کہ اسے کم حصہ دیا ہے اور حسنین رضی اللہ عنھما کو زیادہ حصہ دیا ہے، فرماتے ہیں، ان جیسی ماں تو لائو، ان جیسا باپ تو لائو، ان جیسا نانا تو لائو۔
۶۔حضرت عمر فاروق ؓ جو اپنے دور خلافت میں کام کی مصروفیت کی وجہ سے اپنے بیٹے کو تو ملاقات کا وقت نہ دیں لیکن اسی وقت جب پتہ چلے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بھی آئے تھے اور دروازے سے واپس مڑ گئے (کیونکہ انہیں پتہ چلا تھا کہ اس سے چند لمحے پہلے آپ ؓ نے اپنے بیٹے کو وقت نہ دیا تھا) وہ عمر جو چالیس ممالک کا فاتح، جس کے جلال سے عرب و عجم کانپتے ہوں فوراً ننگے پائوں گلی کی طرف بھاگ رہا ہو اور پکارتا ہوکہ ’’ یا حسین‘‘ وقت کی پابندی تو اس کے اپنے بیٹے کے لیے ہے نہ کہ حسین ابن علی المرتضیٰ ؓ کے لیے۔
ایک چھوٹا سا واقعہ ہے کہ حکومت کسے کہتے ہیں اور کس طرح کرتے ہیں۔ جب آپ کوفہ میں تخت نشین ہوئے آپ کے بھائی جناب عقیل ؑ آپ سے ملنے کے لیے آئے تو آپ چراغ جلا کر سلطنت کا حساب لکھ رہے تھے۔ رات کا وقت تھا آپ لکھتے رہے اور جناب عقیل بیٹھے رہے۔جب کام مکمل ہو گیا تو آپ نے چراغ بجھا دیا ۔ جناب عقیل حیران ہو کر بولے یاعلی آپ نے چراغ کیو ں بند کر دیا۔ آپ نے فرمایا اس میں جلنے والا تیل ملک و قوم کی امانت ہے اس کو تب تک جلنے دیا جائے تب تک میں قومی کام کر رہا تھا۔ اب سرکاری کام ختم ہوا تو اس کو بجھا دیا۔ قوم کو امانت کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔ اب ہماری ذاتی گفتگو ہو گئی ہے تو جناب عقیل نے فوراً حضرت علیؑ کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور عرض کیا کہ مولا آپ جیسا حکمران کسی اور قوم کو بھی ملے گا؟ ۔ مولا علی پر انیس رمضان کی سحری کے وقت مسجد کوفہ میں حالت نماز میں جب سجدے میں تھے تو حملہ کیا گیاتو زہرمیں بجھی ہوئی تلوار سے وار کیا گیا آپ کے سر اقدس پر شدید ضرب لگی جس سے آپ زخمی ہوئے،دو دن بستر بیماری پر آرام پذیر ہوئے۔ آپ نے اپنے قاتل کو شربت پلاتے ہوئے فرمایا۔ انا علی ابن طالب پیو گھبرائو نہیں میں علی ہوں ، جب وار کیا گیا تو آپ نے فرمایا مجھے رب کعبہ کی قسم علی اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ اور۲۱ رمضان المبارک کو ابن ابی طالب جناب حضرت علی ؑ کی ظاہری زندگی کا سفر اختتام ہوا اور جام شہادت نوش فرما کر بارگاہ ایزدی میں ساقی کوثر جا پہنچے۔
(ختم شد)