برطانوی وزیراعظم تھریسامے کنزرویٹو پارٹی کی قیادت سے مستعفی

برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے اپنی اعلان کردہ تاریخ کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ کے عہدے سے استعفی دے دیا۔  میڈیا کی رپورٹ کے مطابق تھریسا مے نئے سربراہ کے انتخاب تک وزیراعظم رہیں گی جو کہ جولائی کے اواخر میں منتخب ہوگا لیکن وہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے معاملے پر فیصلے کا اختیار نہیں رکھتیں۔بریگزٹ کے لیے 31 اکتوبر کی تاریخ طے کی گئی ہے لیکن یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق کیا گیا معاہدہ برطانوی پارلیمنٹ میں تاحال التوا کا شکار ہے۔

خیال رہے کہ 24 مئی کو تھریسامے نے انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی رہنما کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی۔تھریسامے نے 10 ڈاوننگ اسٹریٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ' میں 7 جون برزو جمعہ کو کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی قیادت سے مستعفی ہوجاں گی تاکہ نئی قیادت کو منتخب کیا جاسکے'۔

کنزرویٹو جماعت کے 11 اراکین پارلیمنٹ پارٹی قیادت کے انتخاب کی دوڑ میں شامل ہیں ، جن میں سابق وزیر خارجہ بورس جانسن بھی شامل ہیں جنہیں ایک مضبوط امیدوار قرار دیا جارہا ہے۔تاہم ان 11 میں سے بعض اراکین کے 10 جون کو نامزدگی کی مدت مکمل ہونے سے قبل دستبردار ہونے کا امکان ہے۔پارٹی قیادت کے لیے منتخب ہونے والے شخص کے پاس اس فیصلے کے لیے چند ماہ ہوں گے کہ وہ یا تو تھریسا مے کے منصوبے کو حل کریں، بریگزٹ میں مزید تاخیر کریں یا پھر برطانیہ کے قریبی تجارتی شراکت دار یورپی یونین سے بغیر کسی معاہدے کے علیحدہ ہوجائیں جس سے دونوں کے درمیان کشیدگی کے امکانات ہیں۔

واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد طے کیا گیا تھا 29 مارچ 2019 کو برطانیہ، یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلے گا۔جولائی 2016 کو وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

مارچ 2017 میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔بریگزٹ کے حوالے سے کی گئی پہلی ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔تاہم تھریسامے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے شکست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

بعد ازاں رواں سال 29 مارچ کو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو تیسری مرتبہ کثرت رائے سے مسترد کردیا ۔برطانوی دارالعوام میں بریگزٹ معاہدے کے حق میں 286 جبکہ مخالفت میں 344 ووٹ دیے گئے جس کے بعد بعد آئندہ دو ہفتوں میں معاہدے کے بغیر بریگزٹ ہوگا یا اس میں طویل تاخیر ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔رواں سال 11 اپریل کو یورپی ممالک کے رہنماں نے برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر 6 ماہ تک کی توسیع پر آمادگی کا اظہار کردیا تھا۔بریگزٹ میں توسیع کے معاملے میں یورپی ممالک کے 27 رہنماں نے برسلز میں مذاکرات کرنے کے بعد فیصلہ سنایا تھا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا

ای پیپر دی نیشن