پیرفاروق بہاؤالحق شاہ
پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جو خالصتاً اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔جہاںاپنے اپنے انداز میں اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی طرز حکومت کو فروغ دینے کی کوشش بھی کی جاتی رہی تاہم یہ کوشش کبھی بارآور ثابت نہ ہو سکی ۔آزادی کے بعد سے اب تک یہ پہلا موقع ہے کہ ملک میں تحریک انصاف نے اپنی سیاسی جدو جہد کی بنیاد ہی ریاست مدینہ کے عالیشان تصور پر رکھی اور آج اس ملک کے پسے ہوئے طبقات بجا طور پر ان کی حکومت سے انصاف پر مبنی معاشرے کی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح انداز میں کہہ دیا تھا کہ پاکستان کا نظام حکومت اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا۔گورنر جنرل کا حلف اٹھانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کا نظام حکومت وہی ہوگا جو چودہ سو سال پہلے محمدالرسول اللہ ؐنے تشکیل دیا تھا۔اسلامی نظام ریاست کے بانی سرکارِ دو عالم ؐ کی تشریف آوری ایک ایسے خطہ میں ہوئی تھی جو قانون اور نظم و ضبط سے کلیتاً عاری تھے۔یہی وجہ ہے کہ سرکار کی بعثت سے قبل کے دور کو دور جہالت کہا جاتا ہے ۔آپ ؐنے اعلیٰ انسانی اقدار ، انسانیت کی حرمت ، جان و مال کی سلامتی اور باہمی رواداری کے اصولوں پر ریاست مدینہ کے بنیاد رکھی۔
حضور اکرمؐ نے ریاست مدینہ کے آغاز میں مسجد کو بنیادی مرکز قرار دیا ، یہیں پر سیکرٹریٹ قائم ہوا جہاں پر بڑے فیصلے کیے جاتے۔حضور اکرمؐ نے جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی تو اس وقت ایک طرح کی ہنگامی حالت تھی مسلمان مکہ مکرمہ میں اپنی جائیداد چھوڑ کر کے عالم مسافرت میں مدینہ منورہ میں بطور مہاجر تشریف لائے تھے۔ آپ ؐنے اپنی حکمت و بصیرت کے ساتھ سب سے پہلے اس معاشی تفاوت کو ختم کرنے کے لیے مواخات کا قدم اٹھایا جس کی وجہ سے ایک طرف تو ایسے صحابہ جن کی مالی حالت کمزور تھی وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے دوسری طرف صحابہؓ انصاریوں اور مہاجرین کے درمیان محبت کی ایسی فضا پیدا ہوئی ہوئی جو ہمیشہ قائم رہی۔ اگر ان بنیادی اصولوں پر آج بھی عمل کیا جائے تو معاشرے کی حالت تبدیل کی جاسکتی ہے۔
قانون کی یکساں عملداری
ریاست مدینہ کا سب سے پہلا اصول یہ تھا کہ قانون کا نفاذ سب کے لئے برابر ہوگا۔ حضور اکرم ؐ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر واضح طور پر ارشاد فرمادیا تھا کہ کسی کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے۔ریاست مدینہ میں کسی امیرآدمی کو قانون سے استثنیٰ حاصل نہ تھا۔چوری کے مقدمہ میں میں ایک معزز قبیلے کی خاتون ملزم نامزد ہوئی تو سرکارِ دو عالمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کے لیے بھی یہی قانون لاگو ہوتا۔ریاست مدینہ کے تمام شہریوں کو معاشی سرگرمیوں کے مساوی حقوق حاصل تھے۔حضور اکرم ؐنے اپنے صحابہ کرام کو کاروبار کی طرف راغب کیا۔مواخات مدینہ کے دوران مالی طور پر کمزور صحابہ کرام کی معاشی حالت کو بہتر بنایا گیا۔معاشی مساوات کا ایک اہم اور بنیادی حکم سود کا خاتمہ تھا۔جس کے خاتمے کا آپ ؐ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر باقاعدہ اعلان فرمایا۔
نظام تعلیم
عرب میں پڑھنے لکھنے کا رواج نہیں تھا اسلامی نظام ریاست میں تعلیم کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔حضور اکرمؐ نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو ہجرت سے قبل ہی معلم بنا کر مدینہ منورہ بھیج دیا۔اس لیے حضرت عبداللہ بن عاص اور حضرت عبادہ بن صامت ؓکو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔ صحابہ کرام نے مختلف ممالک کی زبانیں سیکھیں۔خواتین کو گھریلو صنعتوں کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کی بھی تربیت دی گئی۔مسلم ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے آپ ؐ نے اپنے شہریوں کی تعلیم کے لئے غیر مسلم جنگی قیدیوںکو بطور فدیہ مقرر فرما دیا۔
حکام کا احتساب
حضور اکرمؐ نے احتساب کا بنیادی اصول بھی بیان فرما دیا کیا اوراپ جو عمال مقرر کرتے ان کو ہدایات جاری کر کے بھیجا جاتا۔اور اگر کسی کے خلاف شکایت ملتی تو اس پر سخت کارروائی بھی کی جاتی۔اسی طرح شہریوں کے معاملات کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی اور اگر کوئی شخص کس تجارتی اصول کی خلاف ورزی کرتا تو اس کو بھی سزا دی جاتی۔ریاست مدینہ کی سفارتی پالیسی تمام ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات پر مبنی تھی۔قبائل کے ساتھ سرکار دو عالم ؐجو معاہدہ کرتے اس کو پورا کرتے اور اگر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا تو اس کے ساتھ باقاعدہ جنگ کی جاتی۔سفارتکاری کا اصول اور بنیادی نقطہ امربالمعروف اور نھی عن المنکر تھا۔سب لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا اور دین کی دعوت بنیادی اصول تھا۔ریاست مدینہ کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ احکامات کی مکمل عملداری قائم کی جائے اور رسول اکرمؐ نے جو اصول و ضوابط وضع کیے ہیں انکو کما حقہ نافذ کیا جائے۔ ریاست مدینہ اور خلفاے راشدین
حضور اکرمؐ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے خلفائے راشدین نے بھی انہی اصولوں پر اسلامی ریاست کے نظم و نسق کو چلایا۔ریاست مدینہ کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے تمام خلفائے راشدین نے نہ صرف اپنے شہریوں کے حقوق کا خیال رکھا بلکہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے بھی اقدامات کیے۔ اسی خیر وبرکت سکے نتیجے میںراشدین کے دور میں ریاست مدینہ کی حدود عرب سے نکل کر عجم اور افریقہ تک وسیع ہوئیں۔لیکن ہر جگہ وہی اصول اور ضوابط کارفرما رہے جو سرکارِ دو عالمؐ نے وضع فرماے تھے۔سیدنا صدیق اکبرؓ نے حضور اکرمؐ کے ارشادات پر حرف بحرف عمل کیا۔منکرین زکوٰۃ کے خلاف آپ کی جدوجہدضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔اور آپ کا یہ ارشاد آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ اگر کوئی ایک رسی بھی بطور زکوۃ دینے سے انکار کرے گا تو میں اس کے خلاف بھی جہاد کروں گا۔آپ شہریوں کی خبر گیری کرتے رات کو مدینہ منورہ کا خود گشت فرماتے۔اور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتے۔ایک مرتبہ قحط سالی میںحضرت عمر فاروقؓنہ صرف ریاستی وسائل استعمال کرکے لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا بلکہ سارے معاملات کی خود نگرانی کرتے رہے یہاں تک کہ بارش ہوئی اور اللہ تعالی نے وہ قحط ختم فرمایا۔یہی صورتحال حضرت عثمان غنیؓاور حضرت علی شیر خدا ؓکے دور میں بھی رہی۔حضرت علیؓ امیر المومنین ہونے کے باوجود کئی دفعہ قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے۔قاضی نے انہیں اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمات کے فیصلے کیے جو سرکارِ دو عالمؐ نے وضاحت فرما دیے تھے۔مدینہ کی ریاست اللہ کے احکا م پر عمل کرنے کا نام ہے۔ جس میں یتیموں ،مسکینوں کے حقوق کے تحفظ کو اولیت حاصل ہے۔ خواتین کے حقوق کمزور اور طاقتور کے مابین توازن اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کر کے ہی ایک فلاحی ریاست کا تصور تشکیل پا سکتا ہے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،