1998ء کے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی ’’ اندرونی کہانی‘‘

غالباً 15مئی2920ء کی بات ہے۔ اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے وفاقی کابینہ کا غیر معمولی اجلاس طلب کر رکھا تھا۔ تمام وزراء اپنی اپنی نشستوں براجمان تھے وزیر اعظم کی آمد کے منتظر تھے۔ کچھ دیر بعد میاں نواز شریف چوہدری نثار علی خان اور سرتاج عزیز کے جلو میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئے تو تلاوت کلام پاک کے بعد وفاقی کا بینہ کے اجلاس کے یک نکاتی ایجنڈے پر گفتگو کا آغاز ہو گیا۔ وفاقی وزراء چوہدری نثار علی خان اور سرتاج عزیز نے اپنی گفتگو کا آغاز ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر امریکی صدر بل کلنٹن کی جانب سے پر کشش امدادی پیکیج سے کیا۔ دونوں رہنمائوں کی رائے میں یکسانیت پائی جاتی تھی‘ دونوں رہنمائوں نے ایٹمی دھماکے کرنے کی صورت میں پاکستان کو ہونے والے مالی نقصانات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایٹمی دھماکے کئے گئے تو امریکہ سمیت پورا یورپ پاکستان پر مالیاتی پا بندیاں لگا دے گا جس سے پاکستان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ انہوں نے مدلل انداز میں اپنا کیس پیش کیا۔ چونکہ دونوں وزراء میاں نواز شریف کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئے جس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ شاید وہ میاں نواز شریف کی زبان میں بات کر رہے ہیں لیکن جلد یہ تاثر ختم ہو گیا جب میاں نواز شریف نے دونوں وفاقی وزراء کی گفتگو کے بعد راجہ محمد ظفر الحق کو اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کا موقع دیا۔ راجہ محمد ظفر الحق کا شمار ملک کے سینئر ترین سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو جنرل ضیاالحق کی کابینہ کے رکن اور محمد خان جونیجو کے مشیر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔جناب وزیر اعظم ! بھارت نے 5ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو جوابی ایٹمی دھماکے کرنے کا سنہری موقع دیا ہے لہذا پاکستان کو تمام خطرات مول لے کر ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔ اگر ہم نے آج ایٹمی دھماکے نہ کئے تو بھارت پاکستان کو’’ بلیک میل ‘‘کرتا رہے گا اور خطے میں پاکستان کو اپنی’’ طفیلی ریاست‘‘ بنانے کی کوشش کریگا ۔ بھارت خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے پیش رفت کریگا ‘ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے ایٹمی دھماکے نہ کئے تو پھر مسئلہ کشمیر کو فراموش کر دینا چاہیے۔ اگر ہم نے دھماکے نہ کئے تو دنیا پاکستان نے نیوکلر پروگرام کو شک کی نگا ہ سے دیکھے گی۔ اللہ تعالی نے آپ(نواز شریف) کو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا اعزاز دینے کیلئے منتخب کیا ہے تو آپ جرأت و استقامت سے یہ سب کچھ کر گذریں اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا ۔ راجہ محمد ظفر الحق جو دھیمے مزاج کے سیاست دان ہیں انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کے جذبات کی ترجمانی کر کے ماحول ہی تبدیل کر دیا ۔ راجہ محمد ظفر الحق کی تقریر کے دوران پورے اجلاس میں سناٹے کا عالم طاری ہو گیا۔ وفاقی کابینہ کے کسی رکن نے ان کی تقریر کی مخالفت نہیں کی جس کے بعد میاں نواز شریف نے وفاقی کابینہ کے ارکان کو ایٹمی دھماکے کرنے کی نوید سنائی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گوہر ایوب نے کوئی بات کی اور نہ ہی شیخ رشید احمد نے ایٹمی دھماکے کرنے کی وکالت کی البتہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہونیوالی گفتگو باہر نہیں آنی چاہیے تو شیخ رشید احمد نے چوہدری نثار علی خان سے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آپکے موقف کو پذیرائی حاصل ہوتی تو آپ باہر جا کر پریس کا نفرنس کرتے ۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ تو ہو گیا لیکن دھماکوں کی تاریخ کو خفیہ رکھا گیا ۔ دلچسپ امر ہے کہ ایٹمی دھماکے کی تاریخ تک ’’کنفیوژن ‘‘کی فضا قائم رکھی گئی تاکہ پاکستان دشمن قوتیں ایٹمی دھماکوں سے قبل کوئی ’’شرارت‘‘ نہ کر دیں۔ راقم السطور نے مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین و سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق جن سے میرا نصف صدی سے قریبی تعلق ہے سے استفسار کیا کہ شیخ ر شید احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ’’ راجہ محمد ظفر الحق ، گو ہرایوب اور انہوں نے ایٹمی دھماکے کرائے ہیں ‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’ 28مئی1998ء کو ایٹمی دھماکے کرنے کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو ہی جاتا ہے جنہوں نے ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دیا۔یہ کام نواز شریف جیسا جرأت مند لیڈر ہی کرسکتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میاں نواز شریف نے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ایٹمی دھماکوں بارے میں اعتماد میں لینے کیلئے وزراء کی ٹیمیں تشکیل دے دیں۔ ایٹمی دھماکوں کے وقت مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما و سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر مشاہد حسین سید بھی سائے کی طرح میاں نواز شریف کے ساتھ تھے۔ وہ 11مئی1998ء کو میاں نواز شریف کے ہمراہ قازقستان کے دورہ پرتھے۔ میاں نواز شریف الماتے سے کچھ دور پہاڑی سیاحتی مقام پر گئے ہوئے تھے اس دوران ملٹری سیکریٹری کا بار بار فون آ رہا تھا چونکہ اس زمانے میں موبائل فون سروس نہیں ہوا کرتی تھی لہذا ملٹری سیکریٹری کا ان سے رابطہ قائم ہونے میں کچھ دیر لگ گئی۔ جوں ہی میاں صاحب کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کی اطلاع ملی وہ الماتے پہنچ گئے۔ اس دوران میاں صاحب وہاں موجود وفد کے ارکان سے رسمی گفتگو کے بعد پاکستان واپس آگئے۔ انہوں نے ٹیلی فون ٹیپ ہونے کے خدشے کے پیش نظر پاکستان میں کسی ذمہ دار سے بات چیت نہیں کی البتہ انہوں نے کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا جس میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا گیا۔ کمیٹی کے اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ’’ ایٹمی دھماکوں کے بارے میں حکومت جو فیصلہ کرے گی فوج اس کی حمایت کرے گی لیکن وزیر اعظم جو بھی فیصلہ کریں اس کے نفع نقصان (pros and cons) کو دیکھ لیں ۔مشاہد حسین سید نے بتایا کہ الماتے میںمیاں نواز شریف نے مجھ سے ایٹمی دھماکوں کے بارے میں رائے مانگی تو میں نے ان سے کہا کہ’’ سر now or never کی بات ہے میاں صاحب ’’تسی کڑاکے کڈ دیو‘‘۔ میاں صاحب نے کہا کہ میں بھی یہی سوچتا ہوں کہ اگر اب جواب نہ دیا تو پھر کبھی نہیں دے سکوں گا‘ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی‘‘ انہوں نے کہا کہ28 مئی 1998ء کو بھارت کے5 ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں 5ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا فیصلہ تھا لہذا اس کا کریڈٹ بھی ان کو جاتا ہے۔ میاں نواز شریف ان دنوں شدید دبائو میں تھے۔ امریکی صدر کی پانچ ٹیلی فون کالز آچکی تھیں خدشہ تھا کہ میاں نواز شریف امریکی دبائو میں ایٹمی دھماکے کرنے کا ارادہ ترک کر دیں۔ عوامی سطح پر روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی نے میاں نواز شریف کا حوصلہ بڑھایا۔ ایٹمی دھماکے سے ایک روز قبل کل پاکستان اخبار فروش فیڈریشن کی تقریب میں میاں نواز شریف کو کہا کہ اگر آپ نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے 1984-85سے یاد اللہ ہے جب انہوں نے کولڈ ٹیسٹ کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا تھا۔ قبل اسکے کہ کوئی اور نام نہاد سائنسدان پاکستان کو ایٹمی قوت بنا نے کا تاج اپنے سر سجا لے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے نوائے وقت کو انٹرویو دے کر پوری دنیا کو یہ باور کرادیا کہ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے 27مئی 1998ء کو ہی مسلح افواج نے28مئی 1998ء کو کئے جانیوالے ایٹمی دھماکوں کے پیش نظر پاکستان بھارت سرحد پر ایٹمی وار ہیڈ نصب کر دئیے تھے اور اس وقت متعلقہ قوتوں کو یہ پیغام بھجوا دیا گیا تھا کہ اگر بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے وقت اسرائیل کو اپنی سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت دی تو پاکستان اسے ایٹمی جنگ تصور کریگا جس سے بھارت کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے ۔ 28مئی 1998ء کی سہ 3 بجکر 42 منٹ پر ایٹمی دھماکے کئے گئے اٹم بم بنانے کا کریڈٹ حاصل کرنے کی دوڑ میں شریک کچھ سائنسدانوں نے ڈاکٹر اے کیو خان کو ایٹمی دھماکوں کی جگہ چاغی سے دور رکھنے کی سازش کی اور انہیں چاغی پہنچنے کیلئے ہوائی جہاز فراہم کرنے سے انکار کر دیا لیکن پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اصل’’ محافظوں ‘‘ نے انہیں ایٹمی دھماکے کے وقت چاغی کے پہاڑ تک پہنچا دیا۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بھارتی صحافی کلدیپ نائرکے ذریعے بھارتی وزیر اعظم کو یہ پیغام بھجوا دیا تھا کہ بھارت ’’ایٹمی پاکستان‘‘ سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے ۔پھر 22 سال کے دوران بھارت کو ’’ایٹمی پاکستان‘‘ سے چھیڑ چھاڑ کی جرأت نہ ہوئی ۔

محمد نواز رضا--- مارگلہ کے دامن میں

ای پیپر دی نیشن