لداخ کا تنازعہ اور بھارتی رویّہ

Jun 07, 2020

شارق جمال خان

چین اور بھارت کے درمیان لداخ کی سرحد کا دیرینہ مسٔلہ دوبارہ اُبھر کر سامنے آگیا ہے۔ یہ سرحدی تنازعہ 1962 کی بھارت ۔چین جنگ کے بعد ہی شدت اختیار کر گیا تھا ۔ اس سرحد کی بین الاقوامی قوانین کے مطابق حد بندی نہیں ہو سکی اور اسے آج بھی LAC یعنی لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔گذشتہ کئی عشروں سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے زیرِ قبضہ علاقوں پر اپنا حقِ ملکیت جتاتے رہے ہیں جس سے کشیدگی کا عمومی ماحول ہمیشہ برقرار رہا ہے۔ چین اروناچل پردیش کو جنوبی تبت کا حصّہ تصوّر کرتے ہوئے اسے چین کی سر زمین کا جزوِ لازم قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اکسائی چِن کوبھارتی علاقہ گردانتا ہے۔لداخ کے مسئلے کے تانے بانے بھی 1947 میں تقسیمِ برِصغیر کے بعدپیدا ہونیوالے ان گنت بے ھنگم سرحدی تنازعات سے جا ملتے ہیں۔ 2019 تک لداخ ریاست جمّوں کشمیر کا حصّہ رہا لیکن بھارتی پارلیمنٹ نے Jammu and Kashmir Reorganisation Act, 2019 کے ذریعے اس علاقے کو اپنی ایکUnion Terrotory میں تبدیل کر دیا اور اب علاقے کاانتظام وانصرام براہِ ر است مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ بھارت کی ازلی ہٹ دھرمی کے باعث اب یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ حال ہی میں جب بھارت نے اس علاقے میںسڑکیںاورہوائی اڈوں کی تعمیر کا آغاز کیا تو چین نے ان اقدامات کی تشریح بھارت کے مجموعی جارحانہ رویے کے ثبوت کے طور پر کی اور اعلان کیا کہ چونکہ یہ تعمیرات فوجی نقل و حمل میںسہولت پیدا کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں اس لئے قابلِ قبول نہیں ہیں۔جواباً چین نے بھی ہزاروں فوجیوں کو مکمل تیاری کو ساتھ سرحدکے مختلف اہم مقامات پر تعینات کر دیا ۔اس کاروائی کے ذریعے چین نے 60 کلو میٹر علاقے میں بھارتی فوج کی آمد و رفت کا راستہ مکمل طور پر بند کر دیا ۔یوں چین نے واضح کر دیا کہ اگر بھارت نے کوئی بھی اشتعال انگیز حرکت کی تواُس کا فوری اور مناسب جواب دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ جب بھارت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے وا لے آرٹیکلز370 اور-A 35 کو اپنے آئین سے خارج کیا اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا تو چین نے اس عمل کو بیک قلم مسترد کر دیا تھا۔ بعد ازاں چین نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بھی اس معاملے کو اٹھایا تھا۔
اگرچہ ریاستیںانسانوں سے مختلف ہیت و وجود رکھتی ہیں لیکن ریاستوں کے رویے اُنکے لیڈران ،منتطمین اور حکومتوںکی سوچ اور پالیسیوں کے عکاس ہوتے ہیں۔ اِن لیڈران و منتطمین کی انفرادی واجتماعی سوچ ریاست کے کردار ، طر زِعمل، میل جول کے آداب اور رنگ ڈھنگ میں صاف نظر آتی ہے۔ بھارت کیساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ بھارت اس خطے کاواحد ملک ہے جسکے تعلقات اپنے تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ انتہائی کشیدہ ہیں۔اس وقت پاکستان ،چین، بنگلہ دیش اور نیپال سبھی سے بھارت کے معاملات پریشان کُن حد تک غیر تسلّی بخش ہیں۔یہ منطقی اعتبار سے ناممکن ہے کہ بھارت حق پر ہو اور اسکے سارے ہمسائے ناحق شناس ہوں ۔ اہلِ دانش اِس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ انسانی معاشروں میں پیچیدہ اور اختلافی معاملات کو اُس وقت تک کسی مستقل حل کی سمت نہیں لے جایا جا سکتا جب تک عدل، برابری ، انسا نی وقار اور عقل و شعور کے زرّیں اصولوںکا سہارا نہ لیا جائے۔ بعینہ ریاستوں کے مابین تعلقات کو بھی انصاف، اجتماعی شعور، پُر امن بقائے باہمی اور غیر متعصبانہ رویّوں کے ذریعے ہی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اگر معاملات کو حل کرنے کی دانشمندانہ سعی نہ کی جائے تو معاملات مزید بگاڑ کی سمت جاتے ہیں ۔الجھاؤ اور انتشارنئے مسائل کو جنم دیتے ہیں اور اس طرح مسائل کے طُومار کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔
چین ، پاکستان اور نیپال کے ساتھ تو بھارتی روّیہ ہمیشہ سے مناقشانہ، جارحانہ اورمبنی بر عداوت رہا ہے۔بھارت کو احساس ہونا چاہئے کہ اُسکے عمومی رویئے میں کچھ ایسا ضرور ہے جو اُسکے ہمسایہ مملک کو شکوک و شبہات میں مبتلا رکھتا ہے۔ جعلی اور خودپرستانہ احساسِ تفاخر، نرگسیت،مبالغہ آمیز خودپسندی،دھونس و زبردستی سے کام لینے کی عادتِ بد ، اپنی طاقت پر بے جا غرور،دوسروں سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت کی مفقودگی اور بلا سبب استحقاق جتانابھارت کے بد نُما کردار کی ایسی جہتیں ہیں جن کے سبب وہ اپنے کسی بھی ہمسایہ ملک سے تعلقات استوار نہیں کر پاتا۔ اگرچہ بھارت اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمیشہ سے اسی قسم کا برتاؤ کرتا چلا آیا ہے لیکن نریندر مودی کی حکومت نے تو ببانگِ دہل اس پالیسی کو ہر معاملے میں ریاست کے متوقع ردّعمل کا حصّہ بنا دیا ہے۔ جب تک بھارت اپنے ریاستی برتاؤ پر نظرِ ثانی نہیں کریگا خطے میں امن کے قیام کی کوششیں با ر آ ور نہیں ہو سکیں گی۔

مزیدخبریں