را کی سہولت کاری:  سقوط ڈھاکہ تا آپریشن بلیوسٹار

Jun 07, 2021

یادش بخیر…28اگست 1973 کو پاک  بھارت وزرائے خارجہ کے مابین دہلی میں معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق  فریقین ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ ختم کر دیں گے اور ایک دوسرے کے ہاں گرفتار شہریوں اور فوجیوں کو رہا کر دیا جائے گا ۔بعد میں اس معاہدے میں بنگلہ دیش کو بھی فریق قرار دیا گیا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اندراگاندھی کے وزیر اعظم بننے کے چند ماہ بعد ہی بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔تب ’’ٹی این کول‘‘ بھارت کے خارجہ سیکرٹری تھے جو 7نومبر 1968سے 3دسمبر 1972تک اس منصب پر رہے اورآر این کائو’را‘ کا پہلا چیف تھا جو 1977تک اس عہدے پر رہا۔واضح رہے کہ 1971میں سانحہ مشرقی پاکستان کی شکل میں جو ہوا وہ پاکستان  کی تاریخ میں ایسا افسوسناک باب ہے جس کی بابت ہر کوئی بخوبی جانتا ہے تاہم سنجیدہ محققین اس امر پر متفق ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سب سے زیادہ منفی کردار بھارت اور اس کے خفیہ اداروں کا تھا کیوں کہ 1965کی پاک بھارت جنگ میں جب دہلی کے حکمرانوں کو حسب خواہش نتائج نہ مل پائے تو انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی اور ہر قیمت پر پاکستان کو دو لخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ظاہر سی بات ہے کہ یہ معاملہ اتنا آسان اور سہل نہ تھا اسی وجہ سے دہلی کے ایوانوں میں ایک مربوط حکمت عملی ترتیب پائی جس کے تحت ممتاز بھارتی سفارت کار’’ درگا پرشاد دھر‘‘ یعنی ’ڈی پی دھر‘ ، کی قیادت میں بھارتی ماہرین کی ایک خصوصی ٹیم سپین بھجوائی گئی جس نے کافی لمبے عرصے تک سپین کی مختلف لائبر یوں کی خاک چھانی اور ان اسباب و عوامل کے مطالعے میں مصروف رہے کہ جن کی بدولت اندلس یعنی سپین میں صدیوں سے قائم اسلامی حکومت کا نہ صرف خاتمہ ہوابلکہ اس خطے سے مسلمانوں کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔
یہ سارا عمل حکومت ہند کی نگرانی میں انتہائی سائنسٹیفک انداز میں ہنگامی بنیادوں پر ہوا۔ مبصرین کے مطابق اپنے داخلی معاملات سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے بھارتی میڈیا میں پاکستان کیخلاف پراپیگنڈہ کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، 1971 کی پاک بھارت جنگ، بنگلہ دیش کے قیام، بلوچستان میں عدم استحکام کے حوالے سے نت نئی نکتہ آفرینیاں کی جا رہی ہیں۔ اسی ضمن میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ مغربی ممالک میں اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے شر انگیز مظاہرے کرا کے ان کی مخصوص ڈھنگ سے کوریج کے بعد پاکستان کیخلاف پراپیگنڈے میں مصروف ہے، حالانکہ نیدرلینڈ کے ہیگ میں مظاہرہ کرنے والے بھارتی مہروں کی تعداد دو ہندسوں میں بھی داخل نہیں ہو پائی۔ بھارتی میڈیا میں نام نہاد بی ایل اے کی تعریف میں بھی زمین آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ 
خود کچھ بھارتی حلقے ہیگ کے سامنے راء کی جانب سے کرائے جانے والے مظاہرے کو ناکام قرار دے چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیشی عوام میں بھارت سرکارکیخلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے جس پر قابو پانے کیلئے راء مختلف ہتھکنڈے آزمانے میں مصروف ہے۔ کئی دہائیوں سے اس بابت خاموشی چھائی رہی مگر حالیہ دنوں میں چنگاری کو  بھارت کی جانب سے دوبارہوا دینے کی سعی کی جا رہی ہے۔ حالانکہ خود بنگلہ دیش کے نسبتاً اعتدال پسند محقق شرمیلا بوس نے اپنے  اکاؤنٹ  میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ضمن میں بیشتر بھارتی کہانیوں کو انتہائی مبالغہ آمیز قرار دیا ہے۔اسی طرح، ڈاکٹر جنید احمد، کرنل فرخ ظفر (ر)، سابق سفارت کار  افراسیاب مہدی جیسے مصنفین نے اپنی کتابوں میں جنگی واقعات کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس مسئلے پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس بابت بھی زیادہ تر غلط فہمیاں ہندوستان کی ہی ہیں۔ کیوں کہ2015 میں بنگلہ دیش کے دورے کے دوران مودی نے جس طور کھلے عام اعتراف کیا کہ 1971 کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے میں بھارت کا خصوصی کردار تھا اس سے پوری واضح ہو جا تا ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے کے ضمن میں بھارت اور بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اصلی سہولت کار کا کردار ادا کیا اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق  بنگلہ دیش اور پاکستان کے پاس چین کے ساتھ اپنے اپنے تعلقات میں نئے معاشی فوائد کو دریافت کرنے کے بے شمار مواقع ہیں ۔ کیوں کہ وسطی ایشیا اور چین کے ساتھ روابط کو اگر پاکستان اور بنگلہ دیش ٹھوس بنیادوں پر توسیع دیں تو خطے میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے اور بنگلہ دیش CPEC میں شمولیت اختیار کر کے بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ لگتا یہی ہے کہ آر ایس ایس نے ذہنی طور پر سکھوں کو کبھی قبول نہیں کیا۔ تبھی تودو روز قبل بھارتی ریاست میگھالے کی راجدھانی ’’شلانگ‘‘ میں ایک سکھ لڑکی کی بے حرمتی کے بعد سکھ کش فسادات پھوٹ پڑے تھے ۔ مبصرین نے آپریشن بلیو سٹار کی برسی سے عین  قبل ان فسادات کی ٹائمنگ کو اہم قرار دیتے کہا ہے کہ اسے محض سرسری واقعہ قرار دینا نامناسب ہو گا کیونکہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کچھ عرصہ قبل کہہ چکے ہیں کہ آر ایس ایس بھارت سے غیر ہندوئوں کے خاتمے کے لئے تین دن سے ایک ہفتے کے اندر لاکھوں سویم سیوکوں’ہندو رضاکار‘کی ایسی فوج تیار کر سکتی ہے جو ایک اشارے پر کچھ بھی کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ بھارتی فوج کو ایک جوان تیار کرنے میں 6 سے 7 ماہ لگ جاتے ہیں لیکن آر ایس ایس کی لاکھوں کی فوج چند روزکے اندر اکھنڈ بھارت اور رام راجیے کے قیام کا کام پورا کر سکتی ہے۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے انسان دوست حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اسے اس خطے کی بد قسمتی ہی قرار دیا جانا چاہیے کہ ہندوستانی حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اپنے ماضی کے مظالم پر نادم ہونے کی بجائے انھوں نے اپنے یہاں بسنے والی مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی ممالک کا جینا بھی محال کر رکھا ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ اپنے منفی روش ترک کرکے بھارتی حکمران تعمیری رویہ اپنائیں گے تاکہ خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہو ۔

مزیدخبریں