نفاذِ اردو:  عملی اقدامات کی ضرورت 

وزیراعظم عمران خان نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ان کی تمام تقریبات میں اردو زبان استعمال کی جائے۔ ان ہدایات کی روشنی میں وزیراعظم کے معتمد (سیکرٹری ) محمد اعظم خان نے ایک اطلاعیہ یعنی نوٹیفیکیشن جاری کیا جس میں کہا گیا کہ وزیراعظم جن بھی تقریبات میں شرکت کریں، ان میں اردو زبان کا استعمال کیا جائے۔ اس اطلاعیے میں متعلقہ اداروں اور افراد کو وزیراعظم کی ہدایات پر عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوانِ وزیراعظم سے اردو زبان کے استعمال کے لیے جاری ہونے والا مذکورہ اطلاعیہ انگریزی زبان میںہے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے سماجی رابطے کی ویب گاہ پر لکھا کہ وزرا اور سرکاری افسران کو بھی ہدایات جاری کی جائیں گی کہ اپنے پیغامات و تقاریر قومی زبان میں عوام تک پہنچائیں۔ ہمارے عوام کی زیادہ تعداد انگریزی زبان نہیں سمجھتی، عوام کی توہین مت کریں۔ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ جب بھی کوئی عوام سے جڑا پیغام یا تقریر نشر ہو تو وہ ہماری قومی زبان اردو میں ہو۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے سابق منصفِ اعلیٰ جناب جواد ایس خواجہ نے 8 ستمبر 2015 ء کو ایک فیصلے کے ذریعے وفاق اور صوبوں کو اردو کے دفتری زبان کے طور پر نفاذ کی ہدایت کی تھی لیکن چھ سال گزرنے کے بعد بھی تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ 1973 ء کے دستورِ پاکستان کی شق 251میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور آئندہ دس سے پندرہ برس میں اس کو بطور دفتری زبان نافذ کردیا جائے گا لیکن تقریباً پانچ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اردو کو دفتری زبان کا درجہ نہیں مل سکا۔ اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے میں مدد دینے کے لیے آئین کی مذکورہ شق کے تحت مقتدرہ قومی زبان (موجودہ ادارۂ فروغِ قومی زبان) سمیت کئی ادارے بھی قائم کیے گئے لیکن پھر اردو زبان اپنے حق سے محروم ہی رہی۔ اردو شاید دنیا کی واحد زبان ہے جسے ایک ملک میں قومی زبان کا درجہ تو حاصل ہے لیکن اسی ملک میں دفتری معاملات میں اس زبان کا استعمال ممنوع ہے۔  اس ملک کی غالب اکثریت انگریزی سے ناآشنا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں عدالتوں کے فیصلے اور سرکاری اعلانات اور اطلاعیے سب انگریزی میں جاری ہوتے ہیں۔ آج بھی صورتحال یہ ہے کہ کئی سڑکوں پر لوگوں کی رہنمائی کے لیے نصب تختے صرف انگریزی زبان میں ہوتے ہیں، بینکوں کے باہر کئی ہدایت نامے بھی صرف انگریزی میں لکھے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی زبان صرف الفاظ و تراکیب کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ وہ تہذیب و تمدن کے ان حوالوں کی امین بھی ہوتی ہے جو اس معاشرے کی تاریخ اور مقامی اقدار کا پتا دیتے ہیں، لہٰذا اپنی زبان سے دوری تہذیب و تمدن کے ان حوالوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اردو کے نفاذ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری افسر شاہی یعنی بیوروکریسی ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان اس سلسلے میں ڈٹ جائیں اور کسی بھی طرح اردو کا دفتری زبان کے طور پر نفاذ ممکن بنادیں تو یہ ان کا اس ملک اور اس کے عوام پر ایک احسان ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن