وزیراعظم عمران خان نے عالمی یوم ماحولیات کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کا بڑا مسئلہ آنیوالا ہے صوبے ابھی سے کہنے لگے ہیں، ہمارا پانی چوری ہو گیا، آگے جا کر پانی کا بحران مزید سنگین ہو جائیگا۔ گزشتہ روز پاکستان کی میزبانی میں عالمی یوم ماحولیات پر اسلام آبادمیں مرکزی تقریب ہوئی جس میں عالمی سطح پر ماحولیات کی بہتری کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا۔ تقریب میں چین کے صدر، برطانیہ کے وزیراعظم، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت عالمی رہنمائوںکے پیغامات نشر کئے گئے۔ چینی صدر نے اپنے پیغام میں کہا پاکستان کیساتھ مل کر ماحولیاتی تبدیلی کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا تھا ماحولیات کا تحفظ ناگزیر ہو چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری نے کہا کہ پائیدار ترقی کیلئے جنگلات کا تحفظ اور سمندری حیاتیات کی بقا ضروری ہے۔
عالمی ماحولیات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جس کے کم یا زیادہ اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہونگے۔ گلوبل وارمنگ کا مقابلہ عالمی برادری کو مل کر کرنے کی ضرورت ہے جس پر پاکستان کی طرف سے دنیا پر زور بھی دیا جاتا رہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ درجہ حرارت کو معتدل رکھنے کیلئے تحریک انصاف خیبر پی کے میں حکومت کے دوران کے اپنے تجربے کو ملکی سطح پر بھی دہرا رہی ہے۔ خیبر پی کے میں پانچ سالہ دور اقتدار میںایک ارب درخت لگائے گئے‘ اب پورے ملک میں پانچ سال میں 10 ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے یقیناً ماحولیات پر مثبت اثرات مرتب ہونگے مگر جس تیزی سے ماحولیات میں تبدیلی آرہی ہے اور درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اسکے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پہلے ہی جنگلات جیسی نعمت سے محروم ہے‘ تقسیم کے وقت بڑے جنگلات بھارت کے حصے میں چلے گئے‘ چھانگا مانگا ‘ میانوالی اور دیگر چھوٹے جنگلات موجود تھے‘ انہیں ختم کرکے انکی اراضی پر تعمیرات کردی گئیں جس سے موسم کے تغیر وتبدل کے اثرات سے پاکستان زیادہ متاثر ہورہا ہے۔
انٹرنیشنل گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ رواں صدی 2020ء کے آخر تک زمین پر عالمی سطح کا اوسط درجہ حرارت ایک سے 3.5 تک بڑھ جائیگا۔ درجہ حرارت کے اس اضافے سے سطح سمندر میں 95 سے 115 سینٹی میٹر تقریباً چھ سے 37 انچ اضافہ ہو جائیگا۔ اس طرح سمندری طوفانوں اور سونامی کے خطرات بڑھ جائینگے۔
آب و ہوا کی تبدیلی پاکستان میں پانی کے معاملات پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے۔ اگلی دو تین دہائیوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے سیلابوں میں اضافے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ اسکے بعد گلیشیئرز میں کمی آئیگی جو دریائوں میں پانی کی کمی کا باعث ہوگی۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں پانی کی کمی معیشت کو برے طریقے سے متاثر کریگی۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں تو کہا گیا ہے کہ 2025ء میں پانی کی قلت کے باعث قحط سالی کے خدشات ہیں اور پاکستان ایتھوپیا اور صومالیہ جیسی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔
پانی ہماری قومی زندگی کی لائف لائن ہے۔ اس کو ممکنہ طور پر مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے حصے کے پانی پر بھارت قابض ہے۔ پاکستان آنیوالے دریائوں پر یکے بعد دیگرے ڈیمز تعمیر کررہا ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر پوری تیاری سے کوششوں کی ضرورت ہے۔ بھارت جو بھی کرلے‘ وہ ایک حد تک ہی پاکستان آنیوالا پانی روک سکتا ہے۔ بارشیں‘ سیلابوں میں بدلتی ہیں‘ سیلاب تباہی پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ ہم بڑے ڈیم بنا کر اس تباہی سے بچ سکتے اور اسے کام میں لا سکتے ہیں۔ صوبوں کے مابین آج پانی کے تنازعات اس کی کمی کے باعث ہی ہیں۔ ایسے تنازعات کے خاتمے کیلئے پانی کے ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ ذخائر کی تعمیرات کی اشد ضرورت ہے۔ پانی کا بحران سنگین ہونے سے قبل ہی تدابیرکرنا ہونگی۔دو بڑے مہمند اور بھاشا ڈیم بن رہے ہیں‘ یہ دونوں مل کر بھی کالاباغ ڈیم کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ کالاباغ ڈیم پاکستان کی ترقی کی ضمانت بن سکتا ہے جسے چند مفاد پرست عناصر نے متنازعہ بنا دیا‘ جس کا فائدہ سراسر بھارت اٹھا رہا ہے اور وہ اس کیخلاف فنڈنگ کرکے ان عناصر کو اپنے ایجنڈے کے مطابق کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیخلاف استعمال کر رہا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی طرف آنا آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسکی تعمیر سے پانی اور بجلی کی کمی پر قابو پانے میں نہ صرف مدد ملے گی بلکہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن بھی کالاباغ ڈیم ہی ہے اس لئے اس پر سیاست کرنے کی بجائے صوبوں کے مابین اتفاق رائے پیدا کرکے اسکی تعمیر کیلئے راہ ہموار کی جائے۔