صاحبِ خلقِ عظیم(۲)

حضور نبی رحمت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایاتاکہ میں اخلاق حسنہ کودرجہ کمال تک پہنچادوں۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا اللہ نے مجھے ادب سکھایا اور میں نے بطریق احسن ادب سیکھ لیا۔
 ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہیں مشکوۃ نبوت سے براہ راست فیض یاب ہونے کا موقع میسر آیا۔ آپ کے خلق کے بارے میں کتنی پرمعنی اور گہری بات کرتی ہیں ’’حضورؐ کا خلق قرآن تھا، اسکے امر ونہی کی تعمیل حضور کی فطرت کا تقاضا تھا۔ اس بارے میں حضورؐ کو غور وفکر اور سوچ بچار کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ام المومنین نے حضوراکرم ﷺ کے خلق کو مزید تفصیل اور وضاحت سے بیان کیا ’’اللہ کے پیارے رسولؐ سے زیادہ کوئی شخص بھی اخلاق حسنہ سے متصف نہیں تھا۔ حضورؐ کا خلق قرآن تھا جس سے قرآن راضی ہوتا اس سے حضورؐ راضی ہوتے جس سے قرآن ناراض ہوتا حضورؐ اس سے ناراض ہوتے حضورؐ فحش کلام نہ تھے اور نہ بازاروں میں شور کرنیوالے تھے۔ نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ حضورؐ کا شیوہ عفوو درگزر تھا۔ ان ارشادات کے بعد آپ نے سائل کو بتایاکہ وہ سورۃ المومنون کی پہلی دس آیتیں تلاوت کرے‘ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی زبان قدرت سے اپنے حبیب لبیب کے اخلاق مبارکہ کاذکر فرمایاہے‘‘ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں ’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جب حضورؐ کے خلق کی وضاحت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کان خلقہ القرآن آپ کا مقصد یہ تھاکہ حضورؐ کے اخلاق، اخلاق ربانیہ کا عکس جمیل ہیں لیکن بارگاہ خداوندی کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تو نہیں کہا کہ حضور اخلاق ِ خداوندی سے متصف ہیں بلکہ فرمایا حضورؐ کا خلق قرآن کریم کے اوامرو نواہی کے عین مطابق تھا۔ ‘‘
حضور اکرم ﷺ کے خاص خدمت گزار حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں۔ میں نے اللہ کے پیارے رسولؐ کی دس سال خدمت کی (اس وقت انکی عمر آٹھ سال تھی اور وہ سفر حضر میں حضور کی خدمت میں رہا کرتے تھے) اس طویل عرصہ میں رحمت عالمؐ نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا۔ جو کام میں کرتا اسکے بارے میں کبھی نھیں فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا، جو کام نہ کرتا اسکے بارے میں کبھی نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ آپ نے کبھی میرے کسی کام میں نقص نہیں نکالا (بخاری ومسلم)۔ 

ای پیپر دی نیشن