کہتے ہیں کہ ایک تیلی اور جاٹ کی سرراہ ملاقات ہو گئی۔ تیلی کی رگِ ظرافت پھڑکی، بولا ، جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ! جاٹ اس اچانک پھبتی پر تلملا گیا۔ جواباً کہا ’’تیلی رے تیلی تیرے سر پر کولہو!۔ تیلی بولا ’’استاد! قافیہ نہیں ملتا۔ ’’بوجھ تو ڈال دیا ہے۔‘‘ جاٹ کو جواب دینے میں قدرے دشواری پیش آئی بچپن میں سنا ہوا لطیفہ ہمیں ا س لیے یاد آیا ہے کہ آجکل سیاسی پارٹیوں میں کچھ اسی قسم کی جُگت بازی ہو رہی ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد عمران خان بالاخر وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو ئے۔ یہ بات ان کے مخالفین کو ہضم نہ ہو سکی۔ اُن کا استدلال تھا کہ بغیر ’’غیبی ہاتھ‘‘ کے ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ نہ تو ا سکے پاس مطلوبہ تعداد میں ممبرانِ اسمبلی تھے نہ ایسی صلاحیتیں رکھتا تھا جو پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ جہانگیر کے جہاز کی پرواز تو محض ایک دکھاوا تھا:
سرِ آئینہ میرا عکس ہے ، پسِ آئینہ کوئی اور ہے!
ممبران اسمبلی اتنے سادہ لوح نہ تھے کہ ایک اجنبی سوداگر کے ہاتھوں ا پنے قیمتی گھوڑے بیچ دیتے۔ انہیں اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ طاقتور ہوائیں کس سمت میں چل رہی ہیں۔ قُرعہ کس کے کام نکلنا ہے اور ہُما نے کس کے کندھوں پر بیٹھنا ہے۔ آج جو لوگ میاں نواز شریف کو چھانگا مانگا کا طعنہ دیتے ہیں، وہ جہانگیر ترین کو کیا کہیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ دونوں حضرات کو قیمت لگانے کا تردد ہی نہ کرنا پڑا؎
جہاں بکنے کو ہر ایک سے ایک آگے ہو
ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے
اصل مسئلہ خریداری نہیں ہے۔ مشکل کام ان کو لگام ڈالنا ہے ، جس تیزی سے یہ ایک تھان پر اکٹھے ہوتے ہیں ، اسی سُرعتِ سے یہ دوڑ بھی جاتے ہیں۔ چھانگا مانگا کے ’’پیارے‘‘ ایک رات میں میاں نواز شریف کو چھوڑ کر وٹو سے جا ملے۔ جب سپریم کورٹ نے میاں صاحب کے حق میں فیصلہ دیا تو ان کے ضمیر نے میاں صاحب سے معافی مانگنے میں کوئی خلش محسوس نہ کی۔
منظور وٹو کے ڈر کی وجہ سے یہ ایک ماہ تک اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں دعوت شیراز کے مزے لوٹتے رہے۔ وزارت عُلیا کی موہوم امید پر چوہدری صاحبان نے کروڑوں روپے کا بل ادا کیا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے الزام لگایا ہے کہ اسمبلی میں شریفوں نے اُن کا بازو تڑوایا ہے۔ واقفِ حال جانتے ہیں کہ ان کا معاشی بازو بھی 1992ء میں انہی ہاتھوں نے توڑا تھا۔
پنجابی زبان کا محاورہ ہے۔ ’’ڈاڈھے دی مارتے لِسے دی گالی‘‘ زبردست مارتا ہے کمزور کا احتجاج دشنام ترازی تک محدود رہتا ہے۔ عمران خان نے شریف برادران اور زرداری خاندان کیخلاف بے شمار مقدمے کھڑے کر دئیے ۔ ان کو ایک طویل عرصہ تک جیل یاترا کرائی ۔ اب پانسہ پلٹ گیا ہے۔ اب خان کے ’’جُھرنے‘‘ کی باری ہے۔
جو کوئے یار سے نکلے تو سوے دار چلے
یہ الگ بات کہ جس طرح خان میاں صاحبان اور زرداری کا کچھ بگاڑ نہیں سکا اسی طرح ایک مقبول عوامی لیڈرکو زیادہ دیر تک پابند سلاسل نہیں رکھا جا سکتا۔ وزیراعظم نے کہا ہے’’ وہ انتقام پر یقین نہیں رکھتے لیکن قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ میاں صاحب کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ انتقام کا جذبہ آدمی کے خون میں ہوتا ہے۔ دماغ میں نہیں۔ بالفرض لے بھی لیں تو اسے مبصرین TIT FOR TATE ہی کہیں گے۔ چار سال تک اپوزیشن نے عمران خان کو سلیکٹڈ ‘ سلیکٹڈ کہہ کر بڑا زچ کیا ہے۔ جواب آل غزل کے طور پر اس نے موجودہ حکومت کو ’’امپورٹڈ کہا ہے۔کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ دونوں کے مشیران ڈھیلے اورکمزور ہیں اس لئے مفت مشورہ دینے سے ہم باز نہیں آ سکتے! جب میاں شہباز شریف نے اپنے آپکو خادم اعلیٰ کہنا شروع کیا تو ہم نے لکھا خادم کبھی اعلیٰ نہیں ہوتا۔ ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا خدمت گار نہیں گزرا جسکے جلو میں لشکر و سپاہ ہوں اور جو سینکڑوں کمانڈوزکی معیت میں بلٹ پروف گاڑیوں میں سفرکرتا ہو۔ میاں صاحب نے خادم اعلیٰ کی جگہ خادم پنجاب لکھنا شروع کر دیا لیکن شکریہ کسی اور صحافی کا ادا کیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ مجھ سے ذاتی ناراضی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں صرف بتایا گیا ہو۔ (جاری)
سلیکٹڈ بمقابلہ امپورٹڈ
Jun 07, 2022