میری تے مت ای ماری گئی اے

لوگوںکے ذہن میں ایک سوال ضرور ہے کہ آخر وہ کون تھا جس نے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کیا یہ کام ایک دن میں نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد ان کے سیاسی اور ذاتی مخالفین نے تحریک انصاف کی حکومت کی غلطیوں سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ۔ پاکستان کی بیوروکریسی نے سابقہ حکومت سے اپنی دوستیاں نبھائیں اور شاید پی ٹی آئی حکومت بیوروکریسی کا مزاج سمجھنے میں ناکام رہی اور انھوں نے مسلم لیگ حکومت کے قریب ترین بیوروکریٹس کو بڑی سیٹوں پر لگائے رکھا ان کو کسی نے یہ مشورہ ہی نہیں دیا کہ جن بیوروکریٹس کو سابقہ حکومت نے او ایس ڈی کیا ہوا تھا ان سب سے کام لیا جائے۔ مگر کیا کریں "گرہ تقدیر کو تدبیر کے ناخن کھولنے سے قاصر ہیں"۔ بیوروکریسی میں ہر روز کی اکھاڑ پچھاڑ سے حکومت کی مرضی کے ثمرات تو نہیں ملے البتہ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی "۔ عمران خان صاحب کی جیب کے کھوٹے سکّے اور نا اہل ٹیم نے بھی بخوبی اپنا رول ادا کیا۔UNمیں محبوب خدا ﷺ کی عظمت کا دفاع کرنے سے لیکر خاتم النبین ﷺ اتھارٹی قائم کرنا بالآخر عمران خان کو پاکستان اور دنیا میں عزت دے گیا۔ جب اللہ کسی پر راضی ہو جائے تو پھر ہر طرف اس کا تذکرہ ہونے لگتا ہے۔ دوسری طرف عمران خان کا مقابلہ انتہائی تجربہ کار لوگوں سے تھا جو ہر شعبے میں لاجواب ہیں ۔ کبھی راستہ بند نہیں کرتے۔ عمران خان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کی حکومت بننے کے ساتھ ہی ان کے خلاف سازشوںکا جال بچھا دیا گیا تھا جہاں خان کی دوستیاں تھیں وہیں پر نکالے گئے سیاستدانوں نے اپنی صفائیاں پیش کر کے انتہائی کمال حکمت عملی کے ساتھ اپنی جگہ بنانا شروع کردی۔ پاکستانی قوم کا عجیب مزاج ہے یہاں ووٹ لینے کیلئے رشتہ داری، دوستوں کے ساتھ پیروں مریدوں سب کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اندر ڈکشنری سے مہذب، میرٹ، ایمانداری، دیانتداری، کرپشن جیسے الفاظ کو نکال ہی دینا چاہیے۔ میں نے ہمیشہ اس کے برعکس دیکھا ہے ۔ قوم بیچاری بھوک سے مر رہی ہے اور وزیر صحت میڈیسن کمپنیوں سے دوستیاں بڑھا رہے ہوتے ہیں ۔ وسیم اکرم پلس شراب کے پرمٹ دینے کے جرم میں احتساب کیلئے پیش ہو رہے ہوتے ہیں ۔ مہذب قوموں میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا وہاں الزام لگنے پر عہدوں سے الگ ہوتے ہیں اور کچھ ممالک میں الزام ثابت ہونے پر زمین کے نیچے ہوتے ہیں ۔ جب پاک ملک کی پاک اسمبلیوں میں کرپٹ،کریمنل، لینڈ مافیاز ضمیر فروش اپنی دولت اور تعلقات کی طاقت سے براجمان ہو جائیں تو پھردوسروں کو الزام دینے سے پہلے لیڈران کرام کو اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اگر پاکستان کے سارے سیاستدانوں کو پاکستان سے اتنی محبت اور کرپشن سے نفرت ہے تو پھر اسمبلیوں میں بل کیوں نہیں لاتے کرپشن پر موت کی سزا کا قانون کیوں نہیں بناتے ؟ازبکستان جیسے ملک میں منی لانڈرنگ پر سزائے موت ہے۔ مگر پاکستان میں یہ قانون بنانا مشکل ہے ۔ میں نے پاکستان میں سیاستدانوں کو دوہری شہریت پر ناہل ہوتے دیکھا ہے۔ مجھے بحیثیت صوبائی وزیر بخوبی اندازہ ہے کہ ہمارے صوبائی وزراء کی کیا حیثیت ہے۔ اصل طاقت کسی اور کے پاس ہوتی ہے ۔ پالیسیز کہیں اور بنتی ہیں یہ صرف اسمبلی میں حاکم کا حکم بجا لانے کیلئے ہوتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر دوہری شہریت پر سیاستدان نااہل ہوتے ہیں تو پھر سب ذمہ داروں کو بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں کو دوسرے معاملات میں پھنسا کر اصل معاملات سے دور رکھا جاتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب صرف چیک کر لیں کہ ہماری صفوں میں کتنے ذمہ داران نے کسی دوسرے ملک سے وفا داری کا حلف لیا ہوا ہے ۔
 میں شہباز شریف کو جانتا ہوں اگر وہ کچھ کرنے کا ارادہ کر لیں تو پھر کر گزرتے ہیں ۔ نہیں کہہ سکتا کہ وہ یہ کرنا چاہتے ہیں یا نہیں مگر مجھے یہ علم ضرور ہے کہ پاکستان کی محبت میں جس کسی نے یہ کر دیا اس کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ پاکستان اس وقت انتہائی نازک دوراہے پر کھڑا ہے آج تمام اسلامی ممالک کو چاہیے کہ پاکستان کی سسکتی ہوئی معیشت کو سہارا اس لیے بھی دیں کیونکہ ایٹمی پاکستان ان کی بقاء کی بھی ضمانت ہے۔ ہماری قوم اور لیڈرز کے اندر اتنی دوریاں بڑھ گئی ہیں کہ یہ صرف اللہ کے کرم سے ہی دور ہو سکتی ہیں ۔ مجھے افسوس ہے کہ آج پاکستان میں اقتدار اور وسائل پر قابض ہو نے کیلئے وہ لڑ رہے ہیں جن کا پاکستان پر کچھ نہیں لگا۔کس طرح اداروں کی مداخلت کی باتیں اور ایٹمی پاکستان کو دنیا میں تماشہ بنایا گیا ۔ یہ کتنی بڑی سازش ہے ۔ پاکستان اس وقت معاشی بدحالی کی نذر ہو رہا ہے لہذا اس وقت پاکستان بچانے کا ایک ہی حل ہے کہ ملک میں فوری طور پر شفاف الیکشن کا انعقاد کیا جائے ۔اس موجودہ صورتحال پر میں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ: مینوں کجھ سمجھ نئیں آوندی پئی مری تے مت ای ماری گئی اے

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...