مجھے آج کوئی حکومت ، اپوزیشن ، نیوٹرل کسی کی بات نہیں کرنی ، کسی پارٹی کے حق میں یا مخالفت میں کوئی دلائل نہیں دینے ، کون کیا کر رہا ، کس نے کیا کیا ، مجھے آج کچھ نہیں کہنا ، کوئی لوگوں کو بھاشن نہیں دینا ،کوئی لفاظی نہیں، کوئی حرف تسلی نہیں بس صرف وہ درد لکھنا ہے ، اس اذیت کو الفاظ دینے ہیں جو اس وقت ایک عام پاکستانی اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے ، جس کو نا معلوم کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے ؟ایسا کونسا جرم کیا ہے انہوں نے؟ یہ تو بتایا جائے کہ ایسا کیا قصور سر زد ہو گیا ہے ان لوگوں سے کہ روز ایک نیا دن نئی آزمائش لے کے طلوع ہوتا ہے ۔ تکلیفوں کا ایک ایسا لا محدود سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کو ہی نہیں آتا ۔
مارچ کے مہینے سے عدم اعتماد کے نام پہ حکومت تبدیلی مشن تماشے کو تین ماہ ہو چکے ہیں، اپریل کے مہینے میں تیرہ جماعتوں کے اتحاد سے تشکیل دی گئی حکومت کو بھی دو ماہ گزر گئے ہیں خود کو تجربہ کار کہنے والوں نے پاکستان کو ایسا دلدل میں پھینکا ہے کہ معیشت کا جنازہ ہی نکال دیا ہے اور جنہیں عوام ہمیشہ مسیحا سمجھتی رہی بعد میں پتہ چلا کہ وہی ہمارے سوداگر نکلے ۔ پاکستان کی اس وقت موجودہ حالت یہ ہے کہ صرف مہنگائی کی شرح مئی کے مہینے میں شہری علاقوں میں 12.36 فی صد اور دیہی علاقوں میں 15.88 فی صد بڑھی ہے۔ تجارتی خسارہ 43 ارب 33کروڑ ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے ۔ موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ مستحکم سے منفی کر دی ۔ پیٹرول کی قیمت ساٹھ روپے بڑھائی جا چکی ہے اور ابھی مزید اضافے کا امکان بھی ہے ۔ دوسری طرف بجلی ساڑھے سات روپے فی یونٹ بڑھنے سے 25روپے فی یونٹ ہو گئی ہے اور گیس کے نرخوں میں بھی چالیس سے پچاس فیصد اضافہ متوقع ہے ۔ بجلی کا اس وقت شدید بحران جنم لے چکا ہے ۔ بجلی کی طلب و رسد میں اس وقت سات ہزار میگا واٹ کا فرق ہے ۔بیشتر شہروں میں 2گھنٹے بعد ایک گھنٹہ لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے ، تیل ، گیس ، کوئلہ مہنگا ہونے کے باعث بہت سے پاور پلانٹس بند ہو رہے ہیں ۔ قومی کنزیومر پرائس انڈیکس اپریل کے مقابلہ میں مئی کے مہینے میں سبزیا ں 15.26 فی صد ، پھل 12.95 فی صد ، چینی 2.05 فی صد بڑھی ہیں اور ابھی پٹرول کے حالیہ بڑھائے گئے تیس روپے کا اثر آنا باقی ہے ایسے میں حکومتی حلقوں میں سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پیٹرول ، ڈیزل زیادہ تر امیر لوگ استعمال کرتے ہیں اور حکومت اب تک میڈیا کو ایک ارب پچھتر کروڑ کے اشتہارات صرف یہ بتانے کے لئے دے چکی ہے کہ خزانہ خالی ہے ۔ وزیر اعظم صاحب کے غیر ملکی دورے ہی ختم نہیں ہو رہے صرف ترکی کے دورے میں اپنے ساتھ 54 لوگوں کا وفد لے کے گئے جس میں ان کے عدالت سے مفرور بیٹے سلمان شہباز اور ان کی اہلیہ اور بچے بھی شامل تھے ۔ پاکستان میں حکومتیں بدلنے کے تجربے پچھلے پچھتر سالوں میں کتنی دفعہ ہو چکے ہیں لیکن ایک عام آدمی کے ہاتھ آج تک کچھ نہیں آیا جو حکومت آتی ہے وہ قربانی مانگنے بیٹھ جاتی ہے اور گیارہ پارٹیوں کا یہ مشترکہ اتحاد بھی یوں لگتا ہے کہ صرف اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے آیا ہے ۔ اس ملک کی بائیس کروڑ عوام کس کرب اور تکلیف سے گزر رہی ہے انہیں اندازہی نہیں ہے ۔ہمارے پالیسی ساز وہ مراعات یافتہ طبقہ اور پانچ فی صد اشرافیہ ہے جنہیں مہنگائی ، پٹرول ، بجلی ، گیس کی قیمتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے جن کو سردی ، گرمی صرف گھروں کی کھڑکیوں سے دکھائی دیتی ہے اور جنہوں نے غربت صرف کتابوں میں پڑھی اور فلموں میں محسوس کی ہے ۔ ایک عام آدمی کے لئے یہ مہنگائی زندہ درگور کر دینے والی ہے ۔ جب لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی نا رہے ، جان ، مال عزتوں کی حفاظت نہ رہے تو پھر خدا نہ کرے مستقبل کی ہولناکیاں ، حال کو بھی تاریک کر دیتی ہیں خدارا سب صاحب اقتدار ہوش کے ناخن لیں اور لوگوں کو اتنا بے بس نہ کر دیں کہ ان سے زندہ رہنے کا حق ہی چھن جائے ۔