اسلام آباد(نا مہ نگار)پاکستان کے پاور سیکٹر کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گردشی قرضہ ہے جو نا صرف بجلی مہنگی ہونے اور لوڈ شیڈنگ کا باعث بنتا ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔تفصیلات کے مطابق پاور سیکٹر کا یہ گردشی قرض پی ٹی آئی کے دور حکومت میں 119فیصد اضافے سے 2ہزار 467ارب روپے تک پہنچ گیا۔2018میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ ایک ہزار 126ارب روپے تھا، پی ٹی آئی کی حکومت تقریبا ساڑھے تین سال بعد ختم ہوئی تو گردشی قرضہ 2ہزار 467ارب روپے ہو چکا ہے۔ گردشی قرضے میں 119فیصد اضافہ ہوا ہے۔گردشی قرضہ بڑھنے کی بڑی وجوہات میں وصولیاں کم ہونا، روپے کی ڈالر کے مقابلے میں بے قدری، فیول کی قیمتوں میں اضافہ اور کورونا بھی رہا، اس عرصے کے دوران وصولیاں کم ہوگئیں اور حکومت نے موخر بھی کیں۔اس دوران گردشی قرضہ تیزی سے بڑھا، بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیز آئی پی پیز کو کیپیسٹی چارجز کی مد میں پوری ادائیگیاں نہ کرنے سے بھی گردشی قرضہ بڑھا، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ترسیلی اور تقسیم کے نقصانات بھی گردشی قرضہ بڑھنے کی وجہ ہیں تاہم یہ دونوں وجوہات گزشتہ حکومتوں کے دوران بھی تھیں، بجلی تقسیم کی چار کمپنیاں ناقابل تلافی نقصانات کررہی ہیں۔پیسکو کے تقسیم و ترسیلی نقصانات 38فیصد ہیں، نیپرا نے 27.90فیصد تک نقصانات کی اجازت دے رکھی ہے، حیسکو کے یہ نقصانات 28فیصد ہیں، جبکہ نیپرا کی طرف سے 21فیصد کی اجازت ہے۔ سیپکو کے یہ نقصانات 35فیصد ہیں، نیپرا نے 25فیصد کی اجازت دے رکھی ہے۔ کیسکو کے بجلی تقسیم و ترسیل کے نقصانات 30فیصد ہیں ، نیپرا کی طرف سے 17فیصد کی اجازت ہے۔پی ٹی آئی حکومت کے دوران بجلی مہنگی کرکے تقریبا ایک ہزار ارب روپے صارفین سے وصول کیے گئے مگر اس کے باوجود نا اہلی کا عالم یہ رہا کہ پاور سیکٹر کو بہتر کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔اب اس نا اہلی کے اثرات عوام کو بھگتنا پڑرہے ہیں، کیونکہ بجلی مہنگی بھی ہے اور لوڈ شیڈنگ بھی عروج پر ہے، اس کی وجہ گردشی قرضہ ہے، کیونکہ جب بجلی کی تقسیم کار کمپنیز کے نقصانات بڑھیں گے اور ادائیگیاں بھی کم ہوں گی تو وہ بجلی کی سپلائی کم کر دیں گی اور لوڈ شیڈنگ بڑھ جائے گی، جب بجلی دستیاب نہیں ہوگی تو صنعتیں اور کاروبار شدید متاثر ہوگا اور ملکی معیشت پر بھی اس کے برے اثرات آئیں گے۔