پی بی اے کی بینکنگ سیکٹر پر اضافی ٹیکس عائد نہ کرنے کی سفارش

Jun 07, 2022


کراچی(کامرس رپورٹر)چیف ایگزیکٹو آفیسر، پاکستان بینکس ایسوسی ایشن ، توفیق حسین نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور حکومت، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)  اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان( ایس بی پی ) کے اہم اقدامات کی حمایت کر رہا ہے۔ پی بی اے کووڈ 19 وبائی امراض جیسے چیلنجوں سے نمٹنے میںحکومت اور اسٹیٹ بینک کے اقدامات کی حمایت کرنے میں عمل درآمد ی ایجنٹوں کے طور پر بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پی بی اے قومی خزانے میں سب سے بڑا رسد پہنچانے والوں میں سے ایک ہے اس لیے اس کے ساتھ مساوی سلوک کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ 31 دسمبر 2021 کو ختم ہونے والے سال کے لیے  بینکنگ سیکٹر نے قومی خزانے کو تقریباً 178 ارب روپے کے کل ٹیکس ادا کیے ہیں۔ اس شعبے نے 162 بلین روپے سے زیادہ کا ود ہولڈنگ ٹیکس جمع کیا اور ایف بی آر کو ادا کیا۔ 2021 میں پی بی اے کے ممبران کا قومی خزانے میں کل حصہ 340 بلین روپے سے زیادہ تھا۔کارپوریٹ سیکٹر کی کاروباری آمدنی کے حوالے سے پی بی اے کے سی ای او نے کہا کہ حکومت نے اپنے انکم ٹیکس کی شرحوں میں بتدریج کمی کرتے ہوئے ایک بہت ہی مثبت قدم اٹھایا ہے جو ٹیکس سال 2014 کے لیے 35فیصد سے شروع ہو کر 34فیصد اور ٹیکس سال 2019 کے لیے 29فیصد تک ہے۔  انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بینکنگ سیکٹر کے لیے ایسی کوئی کمی نہیں کی گئی ہے۔ان کے مطابق، بینکوں کے لیے 35فیصد ٹیکس کی شرح نہ صرف خطے میں سب سے زیادہ ہے بلکہ پاکستان کے دیگر کاروباری شعبوں، بشمول مالیاتی خدمات  جیسے میوچل فنڈز، ڈی ایف آئیز، لیزنگ  کمپنیوں، انشورنس کمپنیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ چونکہ وہ  29 فیصد ٹیکس کی شرح سے ٹیکس ادا کرتی ہیں۔پی بی اے  اس بات پر یقین رکھتی ہے  مساویانہ مواقعے  فراہم کرنے کے لیے بینکوں پر بھی  29 فیصد کی یکساں ٹیکس شرح  عائد ہونی چاہئے جیسا کہ معیشت کے دیگر شعبوں پر لاگو ہوتا ہے۔پی بی اے کے سی ای او نے بینکوں کی طرف سے سپر ٹیکس کی ادائیگی پر بھی توجہ مبذول کرائی  ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس سال 2015 میں سپر ٹیکس بینکوں کے لیے4 فیصد اور500 ملین روپے یا اس سے زائد کی آمدنی والی بینکنگ کمپنیوں کے علاوہ دیگر اداروں کے لیے 3فیصد کی شرح سے متعارف کرایا گیا تھا  ۔ یہ "عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی" کی مخصوص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صرف ایک بار عائد کیا گیا تھا۔ تاہم بینکنگ اور غیر بینکنگ دونوں شعبوں کے لیے ہر سال اس میں توسیع کی گئی۔ اس کے بعد اسے ٹیکس سال 2020 میں نان بینکنگ سیکٹر کے لیے ختم کر دیا گیا تھا لیکن ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2021 کے نفاذ کے ساتھ اسے بینکنگ سیکٹر پر اسے مستقبل نافذ کردیا گیا۔بینکنگ سیکٹر کے تناظر میں اس پر سپر ٹیکس امتیازی ہے کیونکہ شروع میں نہ صرف یہ شرح نان بینکنگ سیکٹرز کے مقابلے میں  بینکنگ سیکٹر کے لیے ایک فیصد زیادہ تھی، لیکن اب حالیہ ترمیم کے ساتھ صرف بینکنگ سیکٹر پر سپر ٹیکس  عائد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ معیشت کے دیگر تمام شعبوں بشمول مالیاتی اداروں اور انشورنس کمپنیوں کو سپر ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔پی بی اے پختہ یقین رکھتی ہے کہ چونکہ بینکوں کے لیے 4 فیصد سپر ٹیکس امتیازی ہے  اس لیے اسے ختم کیا جانا چاہیے۔پی بی اے کے سی ای او نے مزید کہا کہ 31 دسمبر 2021 کو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے بینکنگ سیکٹر کا 264 بلین روپے کا مکمل بعد از ٹیکس منافع، دیگر شعبوں کے مقابلے میں بہت زیادہ  ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس چیز پر اکثر غور نہیں کیا جاتا وہ یہ ہے کہ بینکوں کی 31 دسمبر 2021 تک 1.94 ٹریلین روپے کی کل ایکویٹی دوسرے شعبوں کے مقابلے میں بھی بہت زیادہ تھی کیونکہ اس شعبے کو ریگولیٹری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بہت بڑے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پی بی اے سمجھتا ہے کہ حکومت  اور ایف بی آر فنانس بل 2022 کے ذریعے بینکنگ سیکٹر پر اضافی ٹیکس لگانے پر غور کررہے ہیں۔ اگر یہ سچ تھا، تو یہ سراسر غیر مساوی ہوگا  کیونکہ اس سے بینکنگ سیکٹر پر ٹیکسوں کا فرق مزید بڑھ جائے گا۔ یہ بینکوں کے تمام اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر ان کے سرمایہ کاروں کیلئے بھی منفی اشارہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پی بی اے  ایف بی آر اور حکومت سے پہلے سے زیادہ بوجھ کا شکار  بینکنگ سیکٹر پر کوئی اضافی/نئے ٹیکس یا لیوی نہ لگانے کی سفارش کرتا ہے کیونکہ بینکنگ سیکٹر مکمل طور پر دستاویزی ہے اور عائد کردہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔

مزیدخبریں