وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے مجموعی 49 ادویات کی زیادہ سے زیادہ قیمت مختص کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اجلاس میں وزارت قومی صحت کی زیادہ سے زیادہ ریٹیل پرائس کی فکسیشن کے حوالے سے بھجوائی گئی سمری پر مفصل گفتگو ہوئی۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ متعلقہ 49 ادویات کی قیمتیں پڑوسی ممالک کے مقابلہ میں کم ہیں۔ ان میں زیادہ تر پہلی بار متعارف کرائی جارہی ہیں۔ ای سی سی نے اس بنیاد پر 49 ادویات کے زیادہ سے زیادہ نرخ مقرر کرنے کی سمری کی منظوری دے دی۔
یہ امر واقع ہے کہ ہمارے ملک میں بالخصوص بھارت کے مقابلہ میں جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں پہلے ہی ایک سے دو گنا زیادہ ہیں۔ عارضہ قلب کی ادویات‘ سٹنٹ اور دوسرے لوازمات کے نرخ عام آدمی کی پہنچ سے عملاً باہر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح عام اور متعدی امراض سے متعلق ادویات خریدنے کی بھی عام آدمی سکت نہیں رکھتا جبکہ عام آدمی کو درپیش اقتصادی مسائل اس کیلئے ہر قسم کے امراض بڑھا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں 49 ادویات کے زیادہ سے زیادہ نرخ متعین کرنا عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اضافہ یقیناً فارماسوٹیکل کمپنیوں اور ڈرگ مافیا کی ملی بھگت سے کیا جارہا ہے جن کے منافع کی پہلے ہی کوئی حد نہیں جبکہ وہ ڈاکٹروں کے ساتھ بھی ملی بھگت کرکے غیرضروری ادویات تک کی خریداری پر مریضوں اور انکے لواحقین کو مجبور کر دیتے ہیں۔ ابھی آنیوالے بجٹ میں بھی عوام کو نئے عائد ہونیوالے بالواسطہ اور براہ راست ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانا ہے جبکہ بجٹ سے پہلے ہی ادویات اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے انہیں ’’جرم غربت‘‘ کی سزا دینے کی ٹھان لی گئی ہے۔ اہل اقتدار کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عوام سب سے زیادہ مہنگائی کے باعث ہی مضطرب ہیں۔ اگر انہیں مزید مہنگائی کے دلدل کی جانب دھکیلا گیا تو پھر اتحادی حکمران عوامی ردعمل کے سامنے ٹھہر نہیں پائیں گے۔