بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے پاکستان کو قرض کی قسط ملنے کے امکانات ہر گزرتے دن کے ساتھ معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ حالات و واقعات سے واضح طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے سیاسی وجوہ کی بنا پر ایسی صورتحال پیدا کی جارہی ہے کہ حکومت بے بس ہو جائے۔ جنگ کے دوران یوکرین کو آئی ایم ایف کی طرف سے ساڑھے سولہ ارب ڈالر مل جانے اور پاکستان کو ایک ارب ڈالر بھی نہ ملنے سے یہ بات مبرہن ہوتی ہے کہ آئی ایم ایف یہ سب کچھ کس کے اشارے پر کررہا ہے۔ امریکا کی جانب سے مختلف مواقع پر ایسے بیانات تو سامنے آئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان کو مستحکم بنانے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام سمیت ہر حوالے سے تعاون کرے گا لیکن یہ ساری باتیں ہماری سیاسی قیادت کے عوام سے کیے گئے وعدوں جیسی ہی نکلیں۔ ایک تازہ بیان میں پھر امریکی وزارتِ خارجہ نے پاکستان کو اتحادی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا علم ہے، اسے ترقی یافتہ اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے عدم استحکام اور معاشی مسائل کے لیے امریکا یا آئی ایم ایف سے تو گلہ بنتا ہی نہیں، ہمیں اپنی سیاسی قیادت کے رویوں اور معاملات کی بات کرنی چاہیے جن کی وجہ سے حالات اس نہج تک پہنچے ہیں۔ اب بھی حکومت مسائل کو حل کرنے کے لیے آئی ایم ایف آئی ایم ایف کی رٹ لگارہی ہے اور اس بات پر توجہ نہیں دے رہی کہ مسلسل کئی ماہ سے اس عالمی ساہوکار نے پاکستان کو، عام آدمی کی زبان میں، ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کر دی ہیں، امید ہے کہ رواں ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ ہو جائے گا۔ اسی انٹرویو میں وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت پاکستان کے عوام اور برادر دوست ممالک کی مدد سے بہترین انداز میں چیلنجوں سے نمٹنے میں کامیاب رہی ہے۔ اگر حکومت اب تک پیش آنے والے چیلنجوں سے عوام اور دوست ممالک کی مدد سے نبرد آزما رہی ہے تو اسے آگے بھی یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوتا تو نظر نہیں آرہا۔
ترکیہ کے قومی خبر رساں ادارہ اناطولیہ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے شہباز شریف نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے ہمارا 9 واں جائزہ تمام شرائط و ضوابط سے مطابقت رکھتا ہے اور امید ہے کہ ہمیں اس مہینے کچھ اچھی خبر ملے گی۔ ہم نے تمام شرائط پوری کر دی ہیں،آئی ایم ایف کی ہر ایک شرط کو پیشگی اقدامات کے طور پر پورا کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے مطابق، اس بار آئی ایم ایف کا تقاضا تھا کہ ان اقدامات کو بورڈ کی منظوری سے پہلے پورا کیا جائے، اس لیے ہم نے ان کو پورا کیا۔ مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان کے عوام نے ماضی میں چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی کمر کس لیں گے اور کھڑے ہوں گے۔ یہ مسائل گزشتہ حکومت کی پالیسیوں، اگست میں آنے والے مہلک سیلاب اور مہنگائی کے باعث ہیں۔ پاکستان اپریل2022ء میں دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔
یہ یقینا ایک مشکل صورتحال ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ان حالات میں کم ازکم تین دوست ممالک ایسے ہیں جو پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام نہ ملنے سے ہونے والے نقصانات سے اب تک بچاتے آئے ہیں۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستان کا بہت ساتھ دیا ہے اور وہ مزید تعاون کے لیے بھی تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم کے حالیہ دورہ ترکیہ کے دوران بھی کچھ اچھی خبریں آئی ہیں جن کے مطابق پاکستان اور ترکیہ مستقبل قریب میں بائیو گیس، شمسی توانائی اور پن بجلی جیسے شعبوں پر توجہ مرکوز کرکے تجارت کو بڑھانے اور باہمی ترقی کو فروغ دینے کے لیے تعاون کو فروغ دیں گے۔ ترکیہ نے بھی کئی مواقع پر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا ساتھ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کا ایسا دوست ہے جس پر مشکل حالات میں اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
دوست ممالک کی مدد اور تعاون تو اپنی جگہ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت کون سے ایسے اقدامات کرتی ہے جن کے ذریعے وہ معیشت کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے سلسلے میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی جس میں شہباز شریف نے کہا کہ بجٹ 2023، 2024ء کا محور ترقی، عوامی فلاح اور کاروبار دوست پالیسیاں ہوں گی۔ آئندہ مالی سال میں شرح نمو اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے پی ایس ڈی پی کے حجم کو700سے بڑھا کر950ارب روپے کیا جا رہا ہے۔وزیراعظم نے مذکورہ اجلاس کے دوران آئندہ مالی سال کو پاکستان کے لیے معاشی ترقی کا سال قرار دیا جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بجٹ پر تمام شعبوں میں بچت پالیسی اپنائی جائے گی۔
بجٹ کے ذریعے حکومت واقعی عوام کو ریلیف دے گی یا نہیں اور معاشی ترقی اور استحکام کے لیے کوئی اقدامات کیے جاسکیں گے یا نہیں، یہ تو آئندہ چند روز میں پتا چل جائے گا تاہم اس وقت پاکستان جس صورتحال کا شکار ہے اس سے حکومت کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو جانا چاہیے کہ آئی ایم ایف جیسے اداروں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی وہ قرض اس مقصد کے لیے دیتے ہیں ہمیں اپنے پاوں پر کھڑا ہونے میں دوست ممالک کی ہی مدد لینی چاہیے۔ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کفالت کی طرف آنا چاہیے۔ یقینا یہ بہت ہی مشکل انتخاب ہوگا اور اس راستے پر چلنے کے لیے ہمیں بہت سی قربانیاں دینا ہوں گی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو آئی ایم ایف سے بھی ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے گی اور ایسے ممالک کا دست نگر بھی نہیں ہونا پڑے گی جو ایک لمبے عرصے سے اپنے مفادات کے لیے ہمیں استعمال کررہے ہیں اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کو ہمارے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔