سیاست میں نفرتوں کا زہر گھول دیا گیا ہے۔ اسی لیے ہم سیاست کے نئے اور پراگندہ ماحول میں داخل ہو گئے ہیں۔ علمِ سیاسیات کی تعریف کرتے ہوئے ارسطو کہتا ہے کہ ’’علمِ سیاسیات شہری ریاستوں کا علم ہے‘‘۔ سیاسیات اصطلاحی مفہوم کے اعتبار سے وہ علم ہے جو کسی ریاست کے قانونی و سماجی نظام کا احاطہ کرتا ہے۔ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث علم سیاسیات بھی ارتقائی منازل طے کرتا چلا گیا ہے۔ شہری ریاستوں کے علم کی تعریف بہت سادہ ہے۔ تاہم ماہرین علمِ سیاسیات تعریف کے ضمن میں مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ بعض لوگ علمِ سیاسیات کو ریاست کا علم کہتے ہیں جبکہ بعض حکومت کا علم۔ تاہم ایسے ماہرینِ فکر و دانش بھی ہیں جو سیاسیات کو ریاست اور حکومت دونوں کا علم قرار دیتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر گارنر کا کہنا ہے ’’علم سیاسیات کی ابتداء اور انتہا ریاست ہے۔‘‘ پروفیسر گریس کہتے ہیں ’’تمام اختیارات کا سرچشمہ ریاست ہے۔ علمِ سیاسیات، ریاست کی اہمیت و مقاصد اور معاشی و معاشرتی مسائل پر بحث کرتا ہے۔‘‘
ان تعریفات کا مرکزی خیال ایک ہی ہے کہ علمِ سیاسیات بنیادی طور پر ریاست سے متعلق ہے۔ اس علم کے توسط سے ریاست کی مختلف جزئیات اور پہلوئوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ علمِ سیاست، ریاست سے شروع ہوتا ہے اور اس کا اختتام بھی ریاست پر ہی ہوتا ہے۔
علمِ سیاسیات معاشرتی علوم کی ایک شاخ ہے۔ جس سے حکومت کی تنظیم ہوتی ہے اور ارتقاء کا بھی احاطہ ہوتا ہے۔ اچھی سیاست سے حکومت کی کارکردگی بڑھتی ہے اور ریاست میں امن و سکون پیدا ہوتا ہے۔ ایک پُرامن معاشرہ ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ جس سے خوشحالی آتی ہے اور ریاست امن و چین اور ترقی و خوشحالی کا گہواراہ بن جاتی ہے۔ مگر یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے سکھ چین کو کس کی نظر کھا گئی ہے۔ ایک ترقی کرتا ملک کیسے سماجی پستیوں میں جا گرا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے ریاست میں امن و امان اور سیاسی افراتفری کی جو مخدوش صورت حال ہے اُس نے ملک کے 24کروڑ عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہر ذی شعور سوچ رہا ہے۔ آگے کیا ہو گا۔ کیا ہونے والا ہے؟ بے چینی اور اضطراب و پریشانی والی اس سوچ نے ملک کی ترقی کا پہیہ جام کر دیا ہے۔
9مئی کو ملک کے مختلف شہروں میں بے امنی کے جو واقعات ہوئے۔ ہم نے اپنے ٹی وی کی چھوٹی سکرین پر جو دلخراش مناظر دیکھے۔ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔ بے لگام لوگوں نے جو کیا وہ شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی کتنی بھی بڑی دلیل دے لے لیکن ان واقعات کے مرتکب افراد کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔
اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ملک جو اس وقت شدید ترین بحران کا شکار اور کئی طرح کے خطرات میں گِھرا ہوا ہے۔ سیاسی تنائو میں شدت آ جانے کے باعث مزید بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ لیکن کوئی نہیں، جو ہمارے سیاسی زعمائوں کو ایک میز پر لا سکے، بٹھا سکے اور سمجھا بھی سکے کہ بات چیت ہی میں بہتری ہے۔ اس سے ملک کا مستقبل محفوظ رہتا ہے۔ آگے بڑھنے کے راستے پیدا ہوتے ہیں۔
مگر اب کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اتنے سارے بحرانوں کا حل ڈھونڈ سکے۔ سیاست میں جو ایک دوسرے کو دیکھناپسند نہیں کرتے، بات چیت کے لیے تیار نہیں، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے لیے آمادہ کر سکے۔ ایک دوسرے کو تسلیم کرنا اور اختلاف رائے رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے بات چیت کرنا ہی سیاست کا اصل حسن ہے۔ سیاست میں کبھی بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے جاتے۔ جہاں گفت و شنید کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ وہاں انارکی ہوتی ہے۔ ملک شدید بحرانوں کی لپیٹ میں چلا جاتا ہے۔
ماضی پر غور کریں تو ہمیں دو ایسی شخصیات شدت سے یاد آتی ہیں۔ جنہوں نے ہر قسم کے سیاسی بحرانوں میں متحارب سیاسی قوتوں کو اکٹھا کیا۔ یہ ماننے کے لیے تیار کر لیا کہ بات چیت سے ہی مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اختلاف رائے بھی ہو تو ہمیشہ گفت و شنید کی گنجائش رکھنی چاہیے۔ یہ امر ہی دلوں کی کدورتوں کو دور کرتا ہے۔ نواب زادہ نصراللہ خاں اور مجید نظامی ماضی کے دو ایسے نام ہیں جنہوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ روٹھنے والوں کو منا لیا جائے۔ ناراضگیاں دور کر کے مل بیٹھنے کی راہ ہموار کی جائے۔ اس موقع پر مجید نظامی مرحوم کو ضرور خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا کہ جن کی سیاسی بصیرت نے ہمیشہ ملک میں بحرانی کیفیات کو ختم کیا۔ مشکل ترین حالات میں بھی جب وہ اپنا کردار ادا کرتے تو بے چینی ختم ہو جاتی اور پیدا ہونے والا ہر سیاسی بحران اپنی موت آپ مرجاتا۔
آج ملک میں جو حالات اور جس طرح کی بے چینی و اضطراب ہے اُس میں اب ایک اور نواب زادہ نصراللہ خاں اور مجید نظامی کی ضرورت ہے۔ نواب زادہ نصر اللہ خاں کے لیے تو کہہ سکتے ہیں کہ اُن کا ایک سیاسی بیک گرائونڈ تھا لیکن اُن کے برعکس مجید نظامی سیاسی کی بجائے صحافتی بیک گرائونڈ رکھتے تھے۔ لیکن ایک بات ضرور تھی کہ تمام مکاتب فکر کے لوگ اُن کی بے حد عزت اور احترام کرتے تھے۔ اُن کی شخصیت میں ایک خاص وصف یہ تھا کہ جو بھی بات کرتے باوزن ہوتی۔ دلیل اُن کی گفتگو کا خاصا ہوتی تھی۔ وہ متحارب سیاسی زعمائوں کو جب اپنے ہاں آنے اور بات چیت کے ذریعے راستے نکالنے کی دعوت دیتے تو سب بلا امتیاز اُن کی دعوت کو قبول کرتے۔ مجید نظامی کا کردار ایک ثالث کا ہوتا جس سے راستے نکل آتے اور بہتری کی فضا پیدا ہوتی۔
آج ہمیں پھر ایک اور نواب زادہ نصر اللہ خاں اور مجید نظامی کی ضرورت ہے۔ تاکہ ملک میں جاری بحران اپنے اختتام کی طرف بڑھ سکے۔ پی ڈی ایم اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین جو رسہ کشی جاری ہے اب اس کا اختتام ہونا چاہیے۔ کیونکہ ملک کے لیے یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے جس سے امن و امان ہی نہیں ہمارے معاشی حالات بھی بہت ابتر ہو رہے ہیں۔
سب کو مل بیٹھ کر گفتگو کے ذریعے تمام مسائل کا حال نکالنا چاہیے۔ اسی میں ہماری سیاسی اور معاشی بقاء ہے ورنہ جو حالات بن رہے ہیں اُن کا سوچ کر ہی جھرجھری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں ملک سے محبت رکھتی ہیں تو انہیں ایثار کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ یقینا اس کے لیے کسی نواب زادہ نصراللہ خاں اور مجید نظامی کی ضرورت ہے۔
٭…٭…٭