پاکستان بند گلی میں پھنس چکا ہے اور اس بند گلی سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی- محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار کہا تھا کہ لیڈر کے سامنے اگر پہاڑ آ جائے تو اس سے ٹکرانے کی بجائے محفوظ راستہ نکالنا لیڈر کا کام ہوتا ہے- پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے لیڈروں نے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر قومی مفادات کو نظرانداز کرکے پاکستان کو بند گلی میں داخل تو کر دیا ہے مگر اسے بند گلی سے باہر نکالنے کی صلاحیت سے وہ عاری ہیں- پاکستان کو موجودہ بحران سے دو چار کرنے کے لیے اداروں اور عوام نے بھی کردار ادا کیا ہے- پی ڈی ایم کی جماعتیں اگر عمران خان کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیتیں تو پاکستان بند گلی میں داخل نہ ہوتا - تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اگر عمران خان صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے اور محاذ آرائی سے گریز کرتے تو پاکستان بند گلی میں داخل نہ ہوتا-افسوس انہوں نے مفاہمت کے تمام دروازے بند کر دیے جب کہ سیاست تو ممکنات کا کھیل ہوتا ہے - آج پاکستان کو جس مشکل ترین صورتحال کا سامنا ہے اس کی ذمہ داری حکومتی اتحاد اور اپوزیشن دونوں پر عائد ہوتی ہے - سیاست دان اگر محب وطن اور عوام دوست ہوتے تو پاکستان کبھی بند گلی میں داخل نہ ہوتا- افسوس سیاست دانوں اور دوسرے سٹیک ہولڈرز کی انا ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پاکستان کے عوام کو یہ مشکل اور بد نصیب دن دیکھنے پڑے- پاکستان کی مقبول سیاسی جماعت کے حصے بخرے کرنے اور اس کے ووٹ بینک پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششیں عروج پر ہیں- سیاست میں نئی صف بندیاں کی جا رہی ہیں- تحریک انصاف کے با اثر سیاست دانوں کو ریاستی دباو اور جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو چھوڑ دیں- تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان عملی طور پر تنہا ہوچکے ہیں۔ اگر وہ جوش کی بجائے ہوش سے کام لیتے تو موجودہ صورتحال سے بچ سکتے تھے- انہوں نے اعتدال کی بجائے انتہا پسندی پر مبنی بیانیہ کا آپشن استعمال کیا اور اسٹیبلشمنٹ کو دباوŸیں لانے کے لیے مہم جوئی کر بیٹھے- سیاسی بصیرت کا تقاضا یہ تھا کہ عسکری پہاڑ سے ٹکراوœی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے اور خوش اسلوبی کے ساتھ عام انتخابات تک پہنچ جاتے- انھوں نے عوام اور اسٹیبلشمنٹ کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا اور اپنا سیاسی مستقبل ہی داو پر لگا دیا-پاک فوج کا غصہ اور ردعمل فطری ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال کے دوران باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت پر مبنی اشتعال انگیز زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی-
تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف جو سخت ترین کریک ڈاون کیا جارہا ہے وہ بھی سیاسی تاریخ کا نیا ریکارڈ ہے - پاکستان کے نیک نام سابق آئی جی پولیس سابق ڈی جی آئی بی محترم شوکت جاوید نے اپنے ایک ٹویٹ میں خبر دار کیا ہے کہ طالبان پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ناراض اور مایوس کارکنوں سے رابطے کر رہے ہیں-اگر طالبان ان کارکنوں کو اپنا آلہ کار بنانے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے خطرات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے-اسٹیبلشمنٹ کو اس نئی صورتحال کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور نفرت و غصے کے جذبات کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں- نفرت کے جو بیج آج بوئے جائیں گے کل ان کی فصل بھی کاٹنی پڑے گی- پاکستان کا معاشی مستقبل تشویشناک ہو چکا ہے اس خطرے کا مقابلہ بھی امن و امان کی فضا قائم کرکے ہی کیا جا سکتا ہے-پی ڈی ایم کی جماعتیں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں- اگلے انتخابات کے بعد اگر پی ڈی ایم کے رہنما دوبارہ اقتدار میں آگئے تو ان سے سیاسی اور معاشی استحکام کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے- ادارے نہ صرف آپس میں محاذ آرائی کر رہے ہیں بلکہ اداروں کے اندر تقسیم اور اختلاف رائے صاف نظر آ رہا ہے- موجودہ سیاسی عسکری اور عدالتی شخصیات پاکستان کو بحران سے باہر نکالنے میں ناکام ہیں۔ پاکستان کو بند گلی سے باہر نکالنے کا ایک ہی آبرومندانہ راستہ ہے کہ اس کے تمام اسٹیک ہولڈرز 2 سال کی قومی حکومت پر اتفاق رائے کرلیں-حکومت پر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا مالیاتی بوجھ کم کیا جاسکے گا- وفاق اور صوبوں میں چھوٹے سائز کی حکومتیں تشکیل دی جائیں جو سیاسی جمہوری نظام معاشی نظام عدالتی نظام پولیس بیوروکریسی اور اسٹبلشمنٹ میں مثبت اصلاحات کا پیکج تیار کریں- گورننس کو مستحکم بنانے کے لیے قابل عمل ٹھوس سفارشات مرتب کریں۔ جو سفارشات فائلوں میں بند پڑی ہیں ان پر عملدرآمد کیا جائے- سیاسی ماحول کو سازگار بنایا جائے- پاکستان کو معاشی طور پر اپنے پاوں پر کھڑا کیا جائے -شفاف اور یکساں احتساب کا نظام تشکیل دیا جائے- آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے اور دو سال کے بعد پرامن سازگار ماحول میں شفاف انتخابات کرائے جائیں تاکہ پاکستان بند گلی سے باہر نکل سکے- جن افراد نے پاکستان کو کئی بار ناکام کیا ہے اور عوام کی زندگیوں کو مشکل بنایا ہے انہی پر دوبارہ انحصار کرنا انتہائی افسوس ناک اقدام ہوگا -
پاکستان کے سٹیک ہولڈرز، سیاسی جماعتیں، پاک فوج، عدلیہ، میڈیا اپنے نمائندے نامزد کریں جو باہمی مشاورت اور اجتماعی دانش کے ساتھ مستقبل کا لائحہ عمل تیار کریں- لکیر کا فقیر بننے اور ایک ہی دائرہ کے سفر کو جاری رکھنے سے مسائل مزید پیچیدہ ہوں گے اور بحران حل نہیں ہو سکے گا- سٹیک ہولڈرز 24 کروڑ عوام کی حالت زار پر رحم کریں۔ روڈ میپ اور وے فارورڈ پر اتفاق رائے کریں-حالات ٹھوس تبدیلی کا تقاضا کر رہے ہیں- نئی بوتلوں میں پرانی شراب ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے- بوسیدہ ناکارہ سرمایہ دارانہ وجاگیر دارانہ نظام کو تبدیل کرنا ہوگا- پرانے چہرے اور پرانا نظام دونوں بدلنے ہوں گے- امیدواروں کے پارٹی ٹکٹ بدلنے سے پاکستان اور عوام کا مقدر تبدیل نہیں ہو سکتا - پاکستان میں ایسی نیک نام، اہل اور عوام دوست شخصیات کی کمی نہیں ہے جو قومی جذبے سے سرشار ہو کر پاکستان کو بند گلی سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکیں۔