ڈاکٹر ثانیہ نشتر
ایک تباہ کن معاشی بحران کے باوجود مجھے امید ہے کہ پاکستان اس وقت جس بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے ،اس میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ ان سب مشکلات کا ہمیں اس وقت سامنا ہوا ہے جب ملک اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کے تباہ کن نتائج سے گزر رہا ہے۔اور جلد بازی میںکی گئی قانون سازی سے اداروں پر اس کے برے اثرات پڑے ہیں۔دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد 48 گھنٹوں میں جو کچھ ہوا اس کے نتیجے میں روپے کی قدر میں 3.5 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی اور اسٹاک مارکٹ بھی گر گئی۔ بلومبرگ نے خبردار کیاکہ اس صورتحال میںآئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج میں مزید تاخیر ہوئی تو ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔حالیہ مہینوں میںوفاقی آمدن سود کی ادائیگی کے لیے بھی کافی نہیں رہی۔ ایک اندازے کے مطابق غربت 40 فیصد تک بڑھ چکی ہے، جس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔سی پی آئی کی 36.4 فیصدی موجودہ شرح 59سالوں میںسب سے زیادہ ہے اور ہفتہ وار ایس پی آئی کی شرح میں سال بہ سال 48.35 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بجلی کے نرخوں میںسالانہ33 فیصد اضافہ، اپریل 2022 سے اب تک روپے کی قدر میں 57 فیصد کمی، خام مال کی درآمد پر پابندیاں اور نمایاں طور پربڑھتی ہوئی پیداواری لاگت جیسے مسائل کاروبار کے لئے غیر موافق ثابت ہوئے ہیں۔اسی لئے صنعتوں کو اپنے طورپر بحران کا سامنا ہے ۔ جس میںآٹوانڈسٹری ، سیمنٹ، ایئر لائن انڈسٹری، فارما سیوٹیکل ، ٹیکسٹا ئل اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار شامل ہیں۔رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں بڑے پیمانے کی پیداوار میں 5.56 فیصد کمی ہوئی ہے۔ صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں، 70 لاکھ ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں، جس سے 45 ملین خاندان متاثر ہوئے ہیں۔
تجارتی بینکوں کی مقامی کاروباروں کے لیے مالی اعانت حکومتی قرضوں کے باعث ختم ہو گئی ہے جس کی وجہ موڈیز کی کریڈٹ ریٹنگ Caa1 سے Caa3 تک گرنے کے تناظر میں بین الاقوامی قرضوں پر لگائی گئی پابندیاں ہیں۔ پاکستان بدستور معاشی خطرات گھرا ہوا ہے۔ ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل نظر نہیںآ رہی۔ جون کے بعدملک کے مالیاتی معاملات کیسی کروٹ لیتے ہیں ایک اہم سوال ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مہینوں سے ان خدشات کے باوجود، ممکنہ طور پر آنے والی صورتحال کے بارے میں بہت کم گفتگو ہوئی ہے۔اگر ہم ادائیگیوں کے قابل نہیں رہتے ہے ، تو اس کے تباہ کن اثرات پوری معیشت اور سب پر پڑیں گے ۔ غریب طبقہ شدیدتر متاثر ہو گا۔ سٹاک مارکٹ گرنے اور بنکو ں کے معمولات متاثر ہونے کا امکان ہے۔روپے کی قدر میں مزید کمی آئے گی، اور ڈالر ز کا اندرونی بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے درآمدات کم کرنا ہوںگی۔ زیادہ تر درآمدی خام مال بھی رک جائیگا۔پاکستان کو افراط زر کا سامنا کرنا پڑے گا، اور پیداواری نقصانات کی وجہ سے بے روزگاری بڑھے گی۔
ہم سے زیادہ دور کی بات نہیں، سری لنکا اب بھی اپنے پچھلے سال کے ڈیفالٹ کے نتائج سے دوچار ہے۔7 ارب ڈالر کے بن الاقوامی قرضوں کی واپسی کی معطلی کے بعد، ملک کو معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔نتیجتاً وہاںایندھن، کھانا پکانے کی گسن، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی۔ اس صورتحال نے سری لنکا میں بحران کو جنم دیا ایک خودمختار ملک کیلئے ڈیفالٹ کے اثرات اچھے نیں ہو سکتے غربت کی شرح سے پہلے کی سطح سے 30 فصدسے زیادہ ہے۔
حالیہ دنوں کے واقعات جو عمران خان کی گرفتاری کا رد عمل تھے ہمارے عوام آپس میں دست و گریباں ہیں اس میں مزید کوئی بھی شدت تباہ کن ہو گی۔اگر گندم کی ریکارڈ فصل ہونے کے باوجود ذخیرہ اندوزی کا رجحان رہاتوصورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال میںبھوک کو شامل کرنا ایک نہ بجھنے والی آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ اگرچہ میں اقتصادی اصلاحات کے متعدد منصوبوں کی فہرست پیش کر سکتی ہوں، لیکن انتہائی پولرائزیشن، تنازعات اور غیر یقینی صورتحال کے موجودہ تناظر میں اس وقت تک کوئی بھی تکنیکی حل کام نہیں کرے گا، جب تک کہ اس صورتحال کی بنیادی وجوہات پر توجہ نہ دی جائے۔لہذٰاریاست کے کچھ ادارے جو موجودہ صورتحال کو سدھارنے کی صلاحت رکھتے ہیں انہیں صحیح طریقے سے کام کرنا چاہیئے۔ ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات ناگزیر ہیں۔
انتخابات کے ساتھ ساتھ، ہمیں جمہوریت کو اس کے حقیقی معنوں میں نافذ کرنے کیلئے اصلاحات کی ضرورت ہے، کچھ حساس معاملات پر فوری توجہ کی ضرورت ہے، تعطل کا شکار آئی ایم ایف پروگرام اور اس کے نتیجے، مںا بجٹ سازی ان مںک سے ایک ہے۔دوسرا جاپان میں ہونے والے جی 7 اجلاس کے تناظر مں اپنے سفارتی سرمائے کو متحرک کرنے کی فوری ضرورت ہے تاکہ قرضوں میںریفار کا مقدمہ بنایا جا سکے کیونکہ پاکستان کا قرضہ اب غیر مستحکم ہو چکا ہے۔ہر لمحہ شمار ہوتا ہے اگر مقصد اس بحران کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ اس کے لئے بہت محنت اور خلوص درکار ہوگا۔ اس معاملے میں مسلسل اشتعال انگیزز با ن بازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔یاد رہے کہ پاکستان کی معیشت کی حالت کبھی بھی اتنی نازک نہیں رہی ۔اس کے نتائج سب کے لئے، خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کیلئے بھیانک ہوں گے۔پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو کی پشین گوئی پہلے ہی حوصلہ افزا نہیں بتائی جا رہی اور مالی سال کے اختتام تک اس کے منفی ہونے کی وجہ سے معاشی اور ذریعہ روزگار کے مواقع شدید حد تک محدود ہو سکتے ہیں۔