تعلیم کیساتھ تفریح بھی بچوں کی ذہنی نشوونما کا لازمی جزو

عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
بچپن انسانی زندگی کی وہ منزل ہے جس میں تربیت کے پیمانے، حالات اور واقعات ہوتے ہیں۔ یہ حالات و واقعات بچوں کے اندر مثبت یا منفی تبدیلیاں لاتے ہیں۔ اس معصوم تصوراتی دنیا میں بچے کے خیالات مستقبل کے حوالے سے محدود ہوتے ہیں ، مگر ماں باپ ان کی تعلیمی مستقبل کے لیے فکرمندی کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ان کے خواب ,اراد ے،خواہشیں اور تمنا یہی ہوتی ہے کہ بچے تعلیم کا شوق رکھیں اور ان کی سمجھ بوجھ علم پر ہی منحصر ہو۔
اس شاداب و زرخیز مٹی میں ، اور حسب حال موسم میں، شجر سایہ دار اور ثمردار کے بیج ڈالنے کا وقت پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ بچہ گو کہ پڑھنا لکھنا فورا شروع نہیں کردیتا لیکن سمجھ دار والدین بچے کو ایسا ماحول مہیا کرتے ہیںجہاںاردگردکتابیںہوں۔گھر میں کتابوں کی الماری ہو۔ خود والدین بھی مطالعہ کے شوقین ہوں۔ ایسے ماحول کا پروردہ بچہ خود بخود پڑھائی کا شوق رکھتا ہے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ تفریح پر بھی بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ 
بچوں کو ایسی جگہوں کی سیر کے لیے لے جایا جائے جہاں ان کی آموزش ہوسکے۔ مثلا میوزیم، لائبریریوں، تاریخی جگہیں وغیرہ۔ کتاب سے پڑھنے کے ساتھ ان جگہوں کی سیر سے بچوں پر دیرپا اثرات پڑتے ہیں۔ جو کہ ان کی ذہنی نشوونما میں خاطر خواہ اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔
زیادہ تفریح اور ایسے امیوزمنٹ پارک جو کہ مہنگے بھی ہوں کی سیر ، بچوں کو ضدی اور اپنی بات زبردستی منوانے کی خود سری کے ساتھ شیخی خوری و ریاکاری جیسی قبیح عادات میں مبتلا کرسکتی ہے۔ لہذا ایسی تفریح سے بچنے کا اہتمام کیا جانا چاہئیے۔ تعلیم کا شوق  مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے والدین تفریح و پڑھائی میں توازن پیدا کریںبعض اوقات بچے والدین  یا اساتذہ کے ساتھ کھیل کود کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہلکی پھلکی تفریح گھر یا اسکول میں آرام سے کروائی جاسکتی ہے۔ بچوں کی تعلیم کے لیے کہانیاں سنائی جائیں۔بچوں کو دلچسپ، با مقصد اور تاریخی کہانیاں سنائی جائیں۔بچوں کے مزاج کے مطابق کہانی کو مختصر یا طویل کیا جاسکتاہے۔کہانی میں اصلاح کا پہلو واضح ہو۔ بچوں کی زندگیوں میں کہانیاں گہرے نقوش ثبت کرتی ہیں۔ یہی بچے بڑے ہو کر بہتر کہانی نویس بن جاتے ہیں۔ کہانی کے دوران اقوال زریں بھی موقع کی مناسبت سے سنائے جائیں یہ باتیں بچوں میں روشن خیالات کو جنم دیتی ہیں۔یہ وقت جو بچے بڑوں کے ساتھ گزارتے ہیں ان کی زندگی کا قیمتی وقت ہوتا ہے جو ان کو زیادہ مطالعہ اور مسلسل محنت پر ابھارتا ہے۔
گھر میں لائبریری بنائی جائے۔ گھر میں لائبریری کے قیام سے نہ صرف بچوں میں کتب بینی کا رجحان پیدا ہوتا ہے بلکہ دوست احباب اور محلہ میں بچوں کے دوستوں میں  بھی کتاب پڑھنے کی ترغیب پیدا ہو جاتی ہے۔ من پسند کتاب بچوں کے خوابوں کو تعبیر دینے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ لائبریری ایک علمی پیشکش کے طور پر بچوں کی دلچسپی اور تعلیمی عمل کو بڑھاتی ہے۔آرٹ ورک میں بچے بہت دلچسپی رکھتے ہیں لہذا اس کو سکھانے پر توجہ دینی چاہیئے۔ پرانی اشیاء بیکار نہیں ہوتیں۔ کسی نہ کسی طریقے سے انھیں دوبارہ نئے سرے سے ترتیب دیا جا سکتا ہے یا ان کی مدد سے سجاوٹ کی مختلف اشیاء بنا کر انہیں کام میں لایا جا سکتا ہے۔ آرٹ کا پیریڈ بھی اسکولوں میں بچوں کو دیا جاتا ہے اور آرٹ بھی بچوں کا ایک مضمون ہے جو بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ مل کر اساتذہ یا والدین گھر میں موجود پرانی اور غیرہ استعمال شدہ اشیا کو مختلف طریقوں سے دوبارہ استعمال کرتے ہوئے سجاوٹ کی یا کسی بھی اور طرح کی مختلف اشیاء بنا سکتے ہیں اور اپنے گھر کو سجا سکتے ہیں۔
چیزوں میں ترتیب و توازن کامیاب زندگی کی علامت ہے۔بچوں کے نزدیک آرٹ پیریڈ کرنا ایک بہت ہی دلچسپ مرحلہ ہوتا ہے اور بچے دوسرے امور کو سمجھنے میں اس پیریڈ سے کام لے سکتے ہیں۔ ان اوقات میں بچوں کے اذہان  تازہ دم ہوجاتے ہیں۔ آرٹ پیریڈ کے بعد مشکل اور خشک مضامین کے لیے اپنی ہمتیں جمع کرپاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن