انقلاب آزادی کے بے خوف مجاہد شیخ رشید نے کسی نامعلوم مقام پر واقع اپنے خفیہ بنکر سے ایک اور بیان جاری کیا ہے اور پی ٹی آئی کو چھوڑ جانے والے سابق بطل حریت عثمان بزدار کو بزدلوں کا امام قرار دیا ہے
آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
یعنی بزدار کو بزدلوں کا امام مانے بغیر چارہ نہیں لیکن اس امام کا بھی تو کوئی امام ہو گا یعنی بڑا امام۔ لیکن شیخ جی نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کہی۔ ویسے، بزدار کو شیخ جی نے بزدلوں کا امام کہا تو کچھ تو اس کی وجہ ہو گی۔ کیا بزدار صاحب بھی ’’بالٹی‘‘ پہن کر آتے جاتے ہیں۔
____
عثمان بزدار ساڑھے تین سال تک وسیم اکرم پلس کے ’’ٹائٹل‘‘ کے ساتھ پنجاب کے حکمران رہے۔ اس دوران انہوں نے اپنی کاروباری مہارت کا ایسا سکّہ جمایا کہ انہیں بھولاناتھ نہیں، وشوا پرشاد ماننا چاہئے۔
انہوں نے منافع کمانے والی ایک اَن لمیٹڈ کمپنی فرح گوگی کی شراکت داری، احسن گجر کی سرپرستی میں بنائی۔ اس کمپنی کے منافع کا حساب سالانہ بنیادوں پر نہیں، روز کے روز ہوتا تھا اور روزانہ کی بانٹ، بتانے والوں کے مطابق دسیویں کروڑ میں تھی۔
’’گریٹ خان‘‘ کے کسی دور میں نہایت قریب سمجھی جانے والی عظمیٰ کاردار کا یہ بیان میڈیا پر ایک سے زیادہ بار آیا کہ روزانہ کی اس بانٹ کا 70 فیصد حصہ گریٹ خان کو جاتا تھا، باقی کا 30 فیصد تین حصہ داروں یعنی بزدار، گوجر اور ...فرح گوگی میں بٹتا تھا۔ بعض دیگر ذرائع نے عظمیٰ کاردار کے اس بیان یا دعوے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ معاملہ 70 اور 30 کا نہیں تھا، 50 اور 50 کا تھا یعنی ففٹی ففٹی۔
یہ دوسرا موقف زیادہ درست نظر آتا ہے۔ 70 اور 30 کی بانٹ قرین انصاف نہیں لگتی۔ زیر نظر ماجرا چونکہ تحریک انصاف کا ہے جو بے انصافی کی مرتکب ہو ہی نہیں سکتی۔ لہٰذا یہی دوسرا موقف درست لگتا ہے کیونکہ ففٹی ففٹی سے بڑھ کر اور انصاف کیا ہو گا۔
____
عثمان بزدار نے دوسرے بہت سے بزداروں کی زندگی بدل دی۔ بکریاں چرانے والے اور جھگی جھونپڑوں میں رہنے والے ان گنت بزدار خیر سے ان تین برسوں میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے مالک بن گئے، پجارو اور ایسی ہی دوسری گاڑیوں میں سیر کرنے لگے اور انہیں رہائش کے لیے شاندار لگژری بنگلے اور فارم ہائوس مل گئے۔ ’’قوم‘‘کی ترقی کے لیے بزدار بہتوں کے لیے رول ماڈل سے کم نہیں۔
____
رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی کا فارمولا بھی ان حضرت کو خوب آتا ہے جن کو بھولا ناتھ کہنے والے اب پچھتا رہے ہیں۔ فیصلے والا کلائمکس آیا تو بزدار صاحب نے ایک ’’سعد ساعت‘‘ یعنی شبھ گھڑی کا انتخاب کیا، سلطانی گواہ بننے کی پیشکش اوپر والوں سے کی اور کما خود گئے اور ثواب دارین کو محفوظ بنانے کا بھی بندوبست کر لیا۔
اس اَن لمیٹڈ کمپنی میں ایک حضرت بڑے مولانا کا نام بھی آتا ہے۔ سنا ہے مہورت کا ناریل انہی نے اپنے دست مبارک سے پھوڑا تھا۔ کافی دن ہو گئے، حضرت بڑے مولانا کی کوئی خیر خبر نہیں آئی، خیر تو ہے…؟
____
ادھر حقیقی آزادی کے کاروانِ جہاد نے امریکہ میں خیمے گاڑ لئے ہیں۔ ہر روز ارکان کانگرس اور سینیٹروں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں، ملاقاتوں میں ہدیہ یعنی نذرانہ عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور نذرانے کے عوض یہ درخواست قبول کرنے کی تمنا کی جاتی ہے کہ حضرت، پاکستان کی فوجی امداد رکوائیں۔
اب تک 60 اکان کی خدمت میں گراں قدر نذرانے پیش کئے جا چکے ہیں، سبھی نے شبھ کامنائیں تو دکھائی ہیں لیکن یہ وعدہ کسی نے نہیں کیا کہ وہ پاکستان کی فوجی امداد رکوانے میں کردار ادا کریں گے۔
اس صورت میں تو یہ کروڑوں کی مالیت کے ڈالری نذرانے گویا کھوہ کھاتے میں گئے۔ ایک اور گھاٹے کا سودا، گھاٹا بھی بہت بھاری۔ حق حلال کے ڈالر یوں ضائع جانے کے صدمے نے صدمات کی سنچری پوری کر دی۔
ادھر امریکہ میں بھارتی لابی ان دنوں چھٹیاں منا رہی ہے۔ ان کے حصے کا کام کوئی اور کر رہا ہے تو انہیں زحمت کی کیا ضرورت!
____
کافی دنوں سے گریٹ خان کا وہ بیان پھر سے نہیں آیا جو پہلے تسلسل سے آیا کرتا تھا، یہ کہ اب عدلیہ ہی واحد امیّد ہے۔
سنا ہے کہ جلد ہی اس طرح کا بیان آیا کرے گا کہ اعتزاز احسن اب ہماری آخری امید ہے۔ مزید سنا ہے کہ کارکنوں نے باہر نکلنے سے حتمی انکار کر دیا ہے بلکہ وہ اصرار کر رہے ہیں کہ ہم سرے سے کارکن ہیں ہی نہیں، ہم کبھی کارکن تھے ہی نہیں۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے زمان پارک کس شہر میں ہے، کس سڑک پر ہے۔ چنانچہ اب واحد امید اعتزاز احسن ہوں گے کہ وہ لطیف کھوسہ اور عابد زبیری کو ساتھ ملا کر وکیلوں کو باہر نکالیں__ کچھ تو رونق لگے۔
کیا وکیل باہر نکلیں گے؟۔ کم از کم ان تین مذکورہ بالا کی حد تک تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ باہر نکلیں گے۔ خیال ہے کہ بالٹی پہنے بغیر ہی نکلیں گے۔
____
وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ’’گریٹ خان‘‘ دنیا کو جعلی خبریں دے رہا ہے۔
وزیر اعظم کی خبر صحیح ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ خبر 28 سال پرانی ہے۔ ان تک اب پہنچی ہے۔
ادھر وزیر توانائی نے ارشاد فرمایا ہے کہ اپنے ہی ملک کو نذر آتش کرنا اختلاف رائے کے زمرے میں نہیں آتا۔
وزیر صاحب کی یہ اپنی اور ذاتی رائے ہے جس سے پی ٹی آئی کو شدید اختلاف ہے۔ نذر آتش کرنا دراصل ’’آزادی اظہار‘‘ ہے اور پی ٹی آئی اسی بنیادی حق کے لیئے لڑ رہی ہے( لڑ رہی تھی )۔
____