عمران خان حکومت سے نکلنے اور نو مئی کے دلخراش واقعات کے بعد بھی غیر ضروری مزاحمت کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ ریاستی اداروں کو متنازع بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اور دنیا میں جہاں جہاں لوگ انہیں پسند کرتے یا مانتے ہیں انہیں گمراہ کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ نو مئی کو قانون توڑنے والوں کی گرفتاریوں کو وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر ایسا بیانیہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ جیسے پاکستان میں عام آدمی پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، خوف اور دہشت کی فضا ہے، لوگوں کی آزادی کو خطرات لاحق ہیں، لوگ خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ چونکہ عمران خان سابق وزیراعظم ہیں اور پاکستان کے مخالفین ایسا مواقع ڈھونڈتے رہتے ہیں جہاں انہیں پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا موقع ملے۔ حالانکہ نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ، پرتشدد کارروائیاں اور قومی تشخص کو نقصان پہنچانے والوں کی گرفتاریوں کو کسی بھی طور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک اس روز ہنگامہ کرنے والی خواتین کی گرفتاریوں کی بات ہے تو کیا انہوں نے قانون نہیں توڑا، کیا انہوں نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا، کیا انہوں نے املاک کو نقصان نہیں پہنچایا، کیا انہوں نے قومی تشخص کو خراب نہیں کیا۔ اگر انہوں نے قانون توڑا ہے تو پھر ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہونا چاہیے۔ کیا پی ٹی آئی ورکرز بھلے وہ مرد ہو خواتین ان پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اگر انہیں جلاو گھیراؤ کی اجازت ہے، انہیں توڑ پھوڑ کی اجازت ہے تو جیلوں میں قید دیگر مقدمات میں قید خواتین بھی سوال اٹھا سکتی ہیں کہ ان کی گرفتاری بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف عالمی طاقتوں کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے عمران خان یہاں بیٹھ کر اور ان کے ماننے والے بیرونی دنیا میں یہ کام کر رہے ہیں۔
امریکا کے شہر ئسٹن میں پی ٹی آئی امریکا کے صدر عاطف خان نے وفد کے ہمراہ کانگریس میں گریگ کیسار سے ملاقات میں امریکا کی جانب سے پاکستان کی فوجی امداد انسانی حقوق سے مشروط کرانے کے لیے بھی مدد مانگی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف امریکا کے رہنماؤں نے امریکی کانگریس میں پاکستان سے متعلق قرارداد لانیکی مدد مانگ بھی لی ہے۔ عاطف خان کا کہنا تھا کہ کانگریس کے 86 ممبران نے ہماری پٹیشن پر دستخط کیے ہیں، ہم چاہتے ہیں آپ بھی اس کا حصہ بنیں۔ گریگ کیسار جسے فلسطین اور کشمیر میں بہتا خون نظر نہیں آتا، جسے بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے ساتھ انسانیت سے گرا ہوا رویہ نظر نہیں آتا وہاں انسانوں کو نہ مذہبی آزادی حاصل ہے نہ جینے کا حق دیا جا رہا ہے لیکن گریگ کیسار کو فکر لاحق ہے تو پاکستان میں قانون توڑنے والے شرپسندوں کی گرفتاریوں پر ہے۔ ویسے ہی ان سے رجوع کرنے والے پی ٹی آئی رہنما ہیں۔ گریگ کیسار کہتے ہیں "آپ مجھ پر انحصار کر سکتے ہیں، میں کانگریس میں سوال اٹھاؤں گا کہ امریکا کیسے پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ " جناب گریگ کیسار پاکستان میں جمہوریت بھی ہے اور ایک جمہوری عمل کے ذریعے ایک جماعت کی حکومت ختم ہوئی اس جماعت نے حکومت ختم ہونے کے بعد ملک میں افراتفری پھیلائی اور اس افراتفری کے کچھ کردار آپ کے پاس پہنچے ہیں اگر آپکو جمہوریت اور انسانی حقوق کا دکھ اتنا ہی کھائے جا رہا ہے تو ذرا بہادر بنیں اور فلسطین و کشمیر کے انسانوں کے حقوق پر بات کرنے کی جرات فرمائیں۔
امریکا کانگریس مین کا کہنا تھا کہ "پاکستانی کمیونٹی اور ہم ایک دوسرے سے باہمی طور پر منسلک ہیں، ہم انسانی حقوق اور جمہوریت کو امریکا سمیت دنیا بھر میں سپورٹ کرتے ہیں، امریکا یا اس سے باہر خصوصاً پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سن رہے ہیں، آزادی صحافت اور سیاسی جماعتوں پر دباؤ معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے، آزادی صحافت اور سیاسی جماعتوں پر دباؤ ہمیں غمزدہ کرتا ہے، میرا اور پاکستانی کمیونٹی کاعزم ہے کہ پاکستان کو ایسے حل کی طرف لے جایا جائے جہاں لوگ پسند کی حکومت چنیں۔"
دلچسپ امر یہ ہے امریکہ میں پی ٹی آئی کے حمایتی بھی وہی بات کرتے ہیں جو پی ٹی آئی سربراہ یہاں خطاب کرتے ہیں اتنی مماثلت ہے کہ یا تو وہ عمران خان کی زبان بول رہے ہیں یا عمران خان ان کی زبان بہرحال دونوں صورتوں میں یہ تشویش ناک ہے۔ عمران خان تو حقیقی آزادی کا نعرہ لگا رہے تھے، وہ تو ایبسلوٹلی ناٹ کو فخریہ انداز میں دہراتے تھے، کیا ہم کوئی غلام ہیں ان کے ووٹرز، سپورٹرز کا فخر تھا لیکن اب تو بات امپورٹڈ حکومت سے امپورٹڈ مدد تک پہنچ چکی ہے۔ ان حربوں سے کوئی فرق نہیں پڑنا کیونکہ پاکستان اپنے فیصلوں میں آزاد و خودمختار ہے۔ اس بیرونی مداخلت کو بیرونی سازش بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ عناصر پاکستان میں قانون شکنی اور ریاست پر حملہ آور ہونے والوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنوں نے دفاعی اداروں پر حملے کیے اور اپنے ہی ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دباؤ میں لانے اور لوگوں کو بغاوت پر اکسایا ان کی گرفتاریاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ریاست کی رٹ کو قائم کرنے کے لیے قانون شکنی کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا قانونی عمل ہے۔
خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو وفاقی حکومت سے ناراض ہو گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر عبدالقدوس بزنجو کے مطابق اسلام آباد میں قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان سے کوئی رکن شریک نہیں ہو گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے مطابق یہ فیصلہ وفاقی حکومت کے عدم تعاون کے باعث کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت بلوچستان کے ارکان سینیٹ و قومی اسمبلی کے تجویز کردہ منصوبوں کو سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کرے۔" بلوچستان پاکستان کا اہم صوبہ ہے بدقسمتی ہے کہ سیاست دان حکومت میں نہ ہوں تو انہیں بلوچستان کا بہت غم رہتا ہے لیکن ایوان اقتدار میں پہنچنے کے بعد وہ سب سے زیادہ اس صوبے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں بلوچستان کو ماضی کی نسبت زیادہ توجہ اور ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے بلوچ نوجوانوں کو دشمنوں سے بچانا ہے تو وہاں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانا پڑے گا۔ اس حوالے سے بلوچستان حکومت کو ہر وقت اعتماد میں لیتے ہوئے معاملات آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان دشمنوں کا ہدف ہے اور بلوچ نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کیے بغیر دشمن کو شکست دینا مشکل ہو گا۔
جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دہشت گردوں سے مقابلے کے دوران لانس نائیک محمد صابر نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ سکیورٹی فورسز نے مؤثر طریقے سے دہشت گردوں کے ٹھکانے کا پتہ لگایا تاہم شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران لانس نائیک محمد صابر نے جام شہادت نوش کیا۔ ممکنہ دیگر دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے علاقے کی کلیئرنس جاری ہے۔پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں،بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران وطن کا دفاع کرتے ہوئے اور ملک کو دہشت گردوں سے بچاتے ہوئے ہونیوالی شہادتیں دیکھیں اور اندرونی طور پر پاک فوج کے خلاف منفی باتیں کرنے والوں کو دیکھیں تو دل دکھتا ہے۔ یہ کیسا طرز سیاست تھا جس نے اپنے ہی لوگوں کو اپنے محافظوں کے خلاف بھڑکایا اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرتے ہوئے کسی بے رحم کو یہ خیال نہ آیا کہ شہیدوں کے خاندانوں پر کیا گزرے گی۔ تمام تر منفی حربوں اور الزامات کے باوجود افواج پاکستان کے جوان آج بھی وطن پر قربان ہو رہے ہیں۔ یہی وہ جذبہ شہادت ہے جو دشمن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اللہ اس ملک اور وطن کی حفاظت کرنے والوں کی حفاظت فرمائے۔
آخر میں افتخار عارف کا کلام
یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں وہیں کے نہیں
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پِھر کہیں کے نہیں
وفا سرشت میں ہوتی تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں
یہ بہر لحظہ نئی دْھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ
کس کو معلوم یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں