نواز شریف اور مریم نواز مری پہنچ گئے۔
اب کیا کریں موسم ایسا نامہربان ہے کہ اے سی میں بھی گرمی کا احساس تنگ کرتا ہے۔ باہر نکلنا محال ہو گیا ہے۔ ایسے میں جو لوگ صاحب حیثیت ہیں وہ پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں جانے والوں کے لیے
ہر دن ہووے ساڈا عید ورگا
ہر رات ساڈی شبرات ہووے
والا ماحول ہوتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ مری بھی ایسے خوش قسمت علاقوں میں شامل ہے جہاں گرمیوں میں بھی موسم گرم نہیں ہوتا۔ دن ہو یا رات فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ جبھی تو برطانوی راج میں اسے پنجاب کا گرمائی دارالحکومت قرار دیا گیا۔ صاحب بہادر اور ارکان حکومت کے دفتر یہاں منتقل ہو جاتے تھے۔ یہ رسم ابھی تک جاری ہے۔ گزشتہ روز سرکاری اداروں کا تو پتہ نہیں البتہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اپنے والد محترم نواز شریف کے ہمراہ مری آئی ہیں۔ جہاں وہ کشمیر پوائنٹ پر واقع اپنی رہائشگاہ میں قیام کریں گے۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وزیراعلیٰ مری آئیں اور وہاں ترقیاتی اور اہم سرکاری کام نہ نمٹائیں۔ اب کچھ دن وہاں آرام کے ساتھ ملک کی سیاسی صورتحال اور اپوزیشن کے علاوہ عدالت کے معاملات پر بھی غور ہو گا۔ یوں اس ٹھنڈے ماحول میں ٹھنڈے دماغ کے ساتھ بہت سے معاملات پر غور ہو گا۔ اس کے علاوہ مری میں کئی ترقیاتی کاموں کا آغاز اور افتتاح بھی کیا جائے گا۔ مری والوں نے ہمیشہ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (نون) کا ساتھ دیا ہے تو اب انہیں بھی خوش رکھنا ضروری ہے۔
مذاکرات گھر کے مالک سے ہی ہوں گے۔ عارف علوی۔
اب اسے کوئی غالب کی زبان میں
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردہ¿ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
بھی کہے تو شاید غلط نہیں ہو گا کیونکہ علو ی صاحب کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات کی کوشش میں ہیں مگر نتیجہ نہیں نکل رہا۔ اب عوام کا حافظہ اگر کمزور نہ ہو تو کل تک اوپر سے نیچے تک بمعہ عارف علوی سب حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے تو بات کس سے کرتے۔ اب یہ نیا بیانیہ ہے کہ بات گھر کے مالک سے کریں گے چاہے وہ چوکیدار ہی کیوں نہ ہو۔ صاف کھل کر کیوں نہیں کہا جا رہا کہ کل تک جن کو گالیاں دی جا رہی تھیں الٹا ٹانگنے کی باتیں کی جا رہی تھیں آج انہیں ہی گھر کا اصل مالک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ حکومت کو اجنبی قرار دے کر ان سے دامن بچا کر چلا جا رہا ہے۔ کیا سیاسی جماعتوں اور رہنماﺅں کا انداز یہ ہوتا ہے کہ وہ سیاستدانوں کو چھوڑ کر غیر سیاسی لوگوں سے بات چیت کو ترجیح دیں۔ مگر وہ بھی ان کے روئیے کی وجہ سے پہلو بچا رہے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ ہماری سیاست میں یہ سچ ہوتا دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کبھی سارے دروازے بند نہیں کئے جاتے ایک عدد دروازہ نہ سہی کم از کم کھڑکی ہی کھلی رکھنی چاہیے تاکہ کوئی راہ باقی رہے۔ ورنہ پھر یونہی دوسروں سے راہ و رسم بڑھانا پڑتی ہے کہ خدا را اب ہمیں راہ دیجئے۔
بلاول سندھ حکومت کی سست کارکردگی سے مطمئن نہیں۔
نوجوان بلاول لگتا ہے اب کی بار کچھ نہ کچھ کرنے کے موڈ میں ہیں۔ جبھی تو وہ اپنے صوبے میں قائم اپنی ہی حکومت کی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آ رہے۔ انہوں نے تمام محکموں کی کارکردگی کو سست قرار دیتے ہوئے انہیں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات کا تو نام لے کر انہیں کہا کہ کیا اس محکمے کو اڈیالہ جیل کے قیدی کے علاوہ کوئی موضوع نہیں ملتا۔ اچھا ہوتا اگر بلاول ذرا محکمہ پولیس صحت ،اور محکمہ تعلیم کی بھی خبر لیتے تو یقین کریں کہ سندھ کے عوام کی بڑی تعداد بہت خوش ہوتی۔ اطلاعات و نشریات کے حوالے سے عوام کیا جانیں۔ مگر محکمہ صحت، پولیس اور تعلیم کے حوالے سے کسی بھی شہری سے بات کر لیں وہ شکایات کا دفتر کھول دے گا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کافی عرصے سے اس عہدے پر فائز ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ وہ ان کی اصلاح نہ کر سکے۔ دیہی علاقوں میں پسماندگی آج بھی حکمرانوں کی سنگدلی کو عیاں کرتی ہے۔ وہاں پر حقیقت میں آج بھی بھوک اور ننگ کا دور دورہ ہے۔ حالانکہ یہ لوگ ابھی تک بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو سچ جان کر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں آج بھی ”پاﺅں ننگے ہیں بے نظیروں کے“۔ اب بلاول خود آگے بڑھ کر صوبے کے حالات بہتر بنائیں تاکہ آئندہ الیکشن میں وہ خود حکومت بنا کر اپنے سیاسی منشور کو نافذ کر سکیں اور عوام کو خوشحالی اور امن کی راہ پر چلا سکیں۔ ورنہ باتیں تو سب کرتے ہیں۔ اصل کام عمل کرنا ہے۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کو نکالنے کی تیاریاں۔
خدا جانے ان افغان مہاجرین کا کیا مسئلہ ہے کہ یہ جہاں بھی جاتے ہیں منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ سب نہ سہی مگر اکثریت خود کو نجانے کیوں قانون اور میزبان ملک کے سماج سے بالاتر سمجھنے لگتی ہے۔ حالانکہ انہیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ انسانی ہمدردی کے ناطے ان ممالک نے ان مہاجرین کو مشکل وقت میں پناہ دی۔ جرمنی بھی ان ممالک میں شامل ہے۔ جہاں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین جائز و ناجائز طریقے سے رہ رہے ہیں۔ مگر وہاں بھی ان کی منفی سرگرمیاں جاری ہیں جو وہاں کی حکومت تحمل سے دیکھتی رہی مگر جب ایک افغان مہاجر نے چاقو سے حملہ کر کے ایک پولیس والے کو قتل اور 5 افراد کو زخمی کر دیا تو جرمنی کی حکومت نے فوری ایکشن لینے کا فیصلہ کیا کہ اب ان افغان مہاجرین کو جرمنی سے نکالا جائے گا۔ یہ پاکستان نہیں ہے جہاں اخوة اسلامی کے نام پر سب کچھ برداشت ہوتا ہے۔ ہم نے ان مہاجرین کی مدارت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اپنے شہروں اور دیہات کے دروازے ان پر وا کیے نتیجہ کیا ملا۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ ورنہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی ملک، وہاں ان مہاجرین کو کیمپوں میں رکھا جاتا ہے تاکہ یہ قابو میں رہیں ورنہ وہاں کا حال بھی وہی ہوتا جو پاکستان کا ہے۔ اسلحہ اور منشیات کے ساتھ ساتھ جرائم کا گراف آسمان تک جا پہنچتا۔ مگر یورپی ممالک میں ابھی قانون کی گرفت مضبوط ہے وہ ایسا ہونے سے پہلے ہی فتنے کا سر کچل دیتے ہیں۔ اس کے الٹ ہم سہولت کار بن کر ان منفی عناصر کو مزید سہولتیں دیتے ہیں۔