یہ بات تو سبھی جانتے ہیں اور ٹھیک بھی ہے کہ بجلی چوری ختم ہونے کی صورت میں لوڈ شیڈنگ از خود زیرو ہو جائے گی۔ زیادہ نقصانات والے علاقوں میں معمول سے زائد لوڈ شیڈنگ کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے مگر شارٹ فال نہ ہونے کا دعویٰ سچا نہیں اسوقت ”6ہزار میگاواٹ“ سے زائد کا شارٹ فال چل رہا ہے۔
”بجلی چوری کا سدباب“
ایک مرتبہ ”نواز شریف دور“ میں بیرونی ممالک طرز پر کارڈ سسٹم شروع کرنے پر غورکی خبر چلی تھی پھر ؟ ”بقول حکومت“۔ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے تو اب موقع ہے کہ اِس دیو ہیکل سائز معاشی بوجھ سے قوم کو نجات دلا دیں۔ ”بجلی میڑز“ میں کارڈ کا نظام نافذ کرنے پر غور کریں بلکہ اب تو دنیا بہت ترقی کر گئی ہے جدید ٹیکنالوجی کے موثر۔ مفید استعمال کے طریقوں کو بروئے کار لائیں اور وز۱رت پانی۔ بجلی بھی ختم کر دیں۔ دو فائدے۔ عوام اور اداروں سے بجلی چوری۔ کرپشن ختم۔ اضافی بوجھ بھی ختم۔ ایک اس مد میں اربوں روپے کی بچت اور ٹیکس بھی نہیں لگانا پڑیں گے۔
”سستی بجلی کے بند ہوتے ادارے“
خبر ہے کہ” گدو تھرمل اور کوئلے“ سے چلنے والے پاور پلانٹس بند ہو چکے ہیں۔ اب سچ کیا ہے صرف ”حکومت“ بتا سکتی ہے۔ پانی۔کوئلہ۔ سورج ہمارے ملک میں بہت بڑی نعمتوں کی صورت میں با افراط دستیاب ہیں۔ ”سورج“ تو بلا قیمت سستی ترین بجلی بنانے کا بہت بڑا ذریعہ مکمل طور پر زیرو قیمت پر میسر ہے تو فائدہ نہ اٹھانا کفران نعمت ہے۔ جس کا خمیازہ آج ہم ”اربوں روپے“ کے ”گردش قرضوں“ کی منحوس شکل میں بھگت رہے ہیں۔بجلی کا بل 65 روپے فی یونٹ عوام خریدتے ہیں جو کہ بڑھتا ہی جانا ہے۔ تقریبا 6قسم کے زائد ٹیکس شامل ہیں۔ ہر بل میں تقریباً 48 روپے ناجائز وصول کیے جاتے ہیں۔جبکہ بنگلا دیش میں ”9 ٹکہ“ فی یونٹ ہے۔ افغانستان میں 4 افغانی روپے قیمت ہے جبکہ ہمارے دشمن انڈیا میں 7 روپے ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بجلی” RNLG “سے بنائی جاتی ہے جو 25% ہے۔ پانی سے 24فیصد۔ نیو کلیئر سے 23%۔ کوئلہ سے10فیصد اور سولر کا حصہ صرف ”ایک فیصد“ ہے۔ اب تو ہم بھی خلا میں پہنچ چکے ہیں مگر بجلی بل میں ”ٹی وی فیس“ آج بھی وصول کی جار ہی ہے۔ پانی اور سورج قدرت کی دو بڑی نعمتیں لا محدود صورت میں سال کے اکثریتی حصہ میں مفت میسر ہیں مگر فائدہ اٹھانے کی طرف ہمارے قدم نجانے کیوں نہیں اٹھ رہے۔ ہمارا قول عمل کے برعکس ہے اغیار کے برتن ہمیں بھاتے ہیں جبکہ اپنی تھالیاں ہمیں کاٹتی ہیں۔ یہ ہماری زندگی ہے مگر سوچ اب اپنی ملکیت نہیں رہی۔ قرض در قرض کی لت آخر کِسی نے تو ختم کرنی ہے۔
حکومت کا کام ہے پالیسیاں بنانا۔ عمل درآمد کروانا مختصر عرصہ کے بعد تبدیلیوں والی روش قوم کو بدظن کر دیتی ہے۔ ”نیٹ میٹرنگ“ کے معاملہ کو ہمیشہ کے لیے طے کر دیں کہ بس ٹیکس نہیں لگے گا۔ جب ہم فائدے میں چلنے والے ادارے نجکاری میں پیش کر رہے تھے اور ہیں تو مکمل خسارے میں چلنے والی وزارتوں۔ ذیلی اداروں اور ونگز کو مکمل طور پر ختم کر دیں۔ ”اتھارٹی در اتھارٹی“ والی پالیسیاں اب اپنے نقصانات زیادہ ظاہر۔ ثابت کر چکی ہیں۔ اداروں میں ایکسٹرا۔ ایڈیشنل آسامیاں ختم کر دینی چاہیں۔ مدت ملازمت چاہے کچھ برس بڑھا دیں مگر توسیع اور زائد العمر لوگوں کو اہم اداروں کی ذِمہ داریاں سونپنے کا صاف مطلب ہے کہ میرٹ کی کھلی خلاف ورزی۔ اہلیت فیصلوں سے جانچی جاتی ہے افراد سے نہیں۔ دوسرے حقدار اشخاص کا حق مارنا۔ لازمی ہے کہ ملک و قوم بابت فیصلوں کو سیاست سے پاک کر دیں۔ قرضوں کا بڑھتا بوجھ قرضے لیکر بھی مسائل کا حل نہ ہونا۔ معیشت کی اصلاح درست۔ راست اقدامات سے ممکن ہے جیسے ”گرین پاکستان مہم“۔ ”آرمی چیف“ کا بڑا اصلاحی قدم اور عمل در آمد بھی ہو رہا ہے۔ اقدامات وہ ہوں کہ نتائج نظر آئین نہ کہ تقاریر کرتے اور سنتے رہیں۔ بہت پہلے سے ہمارے” ہمسائے“ ہم سے بہت آگے نکل گئے تھے۔ انھوں نے سدھار کا کام خاموشی کے ساتھ کیا اور نتائج کا اعتراف اب ہم بھی کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں ”ملک“ کو سیاسی بنیادوں پر چلانے کی مشق چلتی آرہی ہے۔ ہر بات کو ہم اپنی پسند کے مطابق دیکھتے۔ سنتے ہیں پھر نتائج اسی بنیاد پر ظاہر ہوتے ہیں۔اب عوام کی بات کرنی پڑے گی۔ ابھی تک بجٹ میں صرف ”عوام۔ صنعت “ کو دی گئی سہولیات (وہ بھی انتہائی محدود ہیں) میں کٹوتی۔ خاتمہ کرنے کی تجاویز سامنے آئی ہیں جبکہ حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کی ایک سطری خبر بھی ہنوز سننے کو نہیں ملی۔ کافی تعداد میں ایسی مدات موجود ہیں جن پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کرنے کی گنجائس ہے مثلاً سگریٹ۔تمباکو۔ متعدد فوائد کا حامل یہ فیصلہ صحت عامہ کے کافی سارے مسائل حل کر سکتا ہے۔ صحت کا بجٹ کم کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔ باہر سے آنے والی ایسی اشیاءجو ملک میں بنتی ہیں علاوہ ازیں لگژری مصنوعات۔ سامان جن کے بغیر قوم با آسانی جی سکتی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں متواتر کمی کا فائدہ اپنی اصل حالت میں عوام تک منتقل نہیں ہو رہا۔” پٹرول۔ ڈیزل“ قیمت بڑھنے کی صورت میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کتنا مگر جائز اضافہ ہونا چاہیے اور کم ہونے پر کتنی کمی کرنی ضروری ہے۔ اب تاجر برادری خود ہی ذِمہ داری اٹھالے۔ ”پرائس کنٹرول کمیٹیاں “ کلی طور پر فیل شدہ نظام کی صورت اختیار کر چکی ہیں ایک تو حکومتوں کا مالی ملبہ کم ہوگا دوسرا تاجر برادری تمام شعبوں کے متعلق پہلے سے ہی ”فعال تنظیموں “ کی شکل میں فنکشنل ہے سب سے بڑھ کر صنعت کار۔ دوکاندار بھی راضی رہینگے نہ شور۔ نہ احتجاج۔ پر حکومت کو اِس پہلو کی طرف موثر قدم اٹھانا پڑے گا۔مہنگائی کے انسداد کی تجاویز میں ”طبع شدہ کالمز“ میں ”پرائس کنٹرول نظام“ پر کافی زور رہا مگر حالات دیکھتے ہوئے عملی تجویز یہی ہے کہ واقعی مہنگائی کم کرنے چاہتے ہیں تو ”تاجر برادری“ کو مستقل طور پر متذکرہ بالا ذِمہ داری سونپ دی جائے۔ مارکیٹ کی اصل قوتوں کے ہاتھ فرض آنے پر بہت بہتر۔ مثبت اثرات پیدا ہونگے۔ بس من مانی نہ کرنے دیں۔