یہ 23فروری 2013ءکی بات ہے ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ 1968ءمیں گرفتار ہونے والوں کی یاد میں بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ نے خصوصی تقریب کا اہتمام کیا۔ دوران تقریب بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر کرنل ریٹائرڈ شوکت علی نے انکشاف کیا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے شیخ مجیب الرحمان اور اسکے ساتھ گرفتار ہونے والے دیگر افراد کے خلاف بغاوت کے حوالے سے اگرتلہ سازش کا مقدمہ حقائق پر مبنی تھا۔ جسے سیاسی انتقام قراردیا گیا اور آزادی کے بعد بنگلہ دیش کے تعلیمی نصاب میں آج بھی ان مقدمات کو جھوٹا و سیاسی انتقام لکھا اور پڑھایا جارہا ہے۔سچ یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمان جمہوری جدوجہد کے ذریعے آزای کے حامی نہیں تھے انہوں نے روز اول ہی سے مسلح جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ لیکن مصلحتاً اس سے گریز کیا جاتا رہا، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ بنگلہ دیش کے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کرتے ہوئے آنے والی نئی نسلوں کو اس سچ سے آگاہ کیاجائے کہ اگرتلہ سازش کیس کو جھوٹ اور سیاسی انتقام قرار دیا جانا اس وقت کی اہم ضرورت تھی۔ اسی موقف ہی کی بنا پر مغربی پاکستان کے تمام سیاستدانوں نے شیخ مجیب الرحمان کی رہائی کیلئے آواز بلند کی اور ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں اپنی شرکت کو شیخ مجیب الرحمان کی کانفرنس میں موجودگی سے مشروط کردیا جس پر آج بنگلہ دیش کے عوام اپنے لیڈر کی رہائی کیلئے پاکستان کے تمام سیاسی لیڈران کے مشکور ہیں۔ اس تقریب کی روداد دوسرے روز بنگلہ دیش کے انگریزی اخبارات میں ڈپٹی سپیکر پارلیمنٹ شوکت علی کی درج ذیل شہہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی۔
Agartala conspiracy case was dubbed as a false case as a strategy at that time, but actually it was not false
یادرہے کہ دسمبر 1967ءمیں شیخ مجیب الرحمان نے اپنے وفادار ساتھیوں کے ہمراہ مشرقی پاکستان کے پار ریاست تری پورہ کے شہر اگرتلہ میں بھارتی خفیہ اداروں کے اہم افسران کے ساتھ ملاقات کی تھی جس میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے مسلح جدوجہد کے سلسلے میں بھارتی مدد، امداد کی فراہمی کے طریقہ کار، باغیوں کو اسلحہ اور پیسوں کی فراہمی جیسے معاملات کو حتمی شکل دی گئی تھی۔یہ ملاقات جو ایک ہوٹل میں کی گئی تھی مکمل ریکارڈنگ اور شیخ مجیب کو خوش آمدید کہنے والے لمحات کی تصاویر دیگر تمام ثبوتوں کے ساتھ جب ایوب خان کے سامنے لائی گئیں تو اس نے جنوری 1976ءمیں شیخ مجیب اور علیحدگی کیلئے تیار کی گئی سازش میں شریک اسکے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے، جن میں فوج وایئرفورس کے چند حاضر سروس افسران( اس وقت بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر بطور کپتان پاک فوج میں خدمات سرانجام دے رہے تھے)۔ اور سول افسران بھی شامل تھے۔
اس ساز ش میں جوبھارت میں تیار ہوئی کہیں بھی یہ شرط شامل نہیں تھی کہ اگر پاکستان میں انتخابات کا انعقاد ہو اور شیخ مجیب الرحمان الیکشن جیت کر وزیراعظم بن گیا تو اندرا گاندھی پاکستان توڑنے کی سازش سے دستبردار ہو جائے گی یا اس سازش کو عارضی طور پر معطل کردیا جائے گا۔ اندرا گاندھی ہر قیمت پر پاکستان کو دو لخت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ پاک فوج کے مظالم کا بیانیہ بناکر مغربی بنگال اور آسام میں مشرقی پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو وہاں لاکر آباد کرنے کیلئے مہاجر کیمپ 1970ءکے پاکستان میں منعقد ہونے والے انتخابات سے قبل تیار کر لیے گئے تھے۔ اندراگاندھی کی نظر میں اس وقت پاکستان کے انتخابات میں عوامی لیگ کی جیت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی تو اس سے صاف ظاہر تھا کہ شیخ مجیب اور اندرا گاندھی پاکستان کو توڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس سلسلے میں مشرقی پاکستان کے اندر کارروائیوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ یہ تمام حقائق بنگلہ دیش اور بھارت میں 1971ءکے بعد شائع ہونے والی بہت سی کتابوں میں موجود ہیں۔ تو پھر آج پاکستان میں اچانک شیخ مجیب الرحمان کو ہیروبنائے جانے کا مقصد کیا ہے ؟ یاسماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹویٹر)پر بانی پی ٹی آئی کے اکاو¿نٹ سے 1971 ءکے حوالے سے شیخ مجیب الرحمان کی حمایت میں پوسٹ کی گئی ویڈیو سے مذکورہ سیاسی جماعت پاکستان کے عوام کو کیا باور کرانا چاہتی ہے؟ اب حالت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ مرکزی لیڈران اس ویڈیو سے لاتعلقی کا اظہار بھی کرتے ہیں اور شیخ مجیب کی انتخابات میں جیت کو آج کی پاکستان میں سیاسی کشیدگی کے ساتھ جوڑتے ہوئے ملک کی سلامتی کے بارے میں تحفظات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے میں استعمال کرنے کے باوجود اس سے انکاری بھی ہیں۔
دنوں ہونے والی فارمیشن کمانڈرکانفرنس میں اس بات کا نوٹس لیاگیا کہ غیر ملکی اسپانسر پر ایکس کے ذریعے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف چلائی جانے والی مہم کا مقصد پاکستان کی نئی نسل، خاص طور پر نوجوانوں کو حقائق سے لاتعلق رکھتے ہوئے انہیں ملکی امن اور ترقی سے دور رکھنا اور ان کے ذہنوں میں ملک کی سلامتی کو لے کر ابہام پیدا کرنا ہے۔ کانفرنس میں سوشل میڈیاپربیرونی عناصر کے تعاون سے چلائی جانے والی پاک فوج کے خلاف مہم کو ڈیجیٹل دہشتگردی سے تعبیر کیا گیا۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست پہلے تو ان عناصر کا کھوج لگائے جو پاکستان کی مخصوص سیاسی جماعت اور اس کے بانی کی پاک فوج کے خلاف رائے کو ایک بھرپور پروپیگنڈہ مہم کے طور پر سوشل میڈیا پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف عدالتی نظام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ مقدمات کو لٹکائے رکھنے کی بجائے 9مئی 2023ء کو پیش آنے والے دہشت گردی پر مبنی واقعات میں ملوث افرادکو سزادے تاکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو اور ملک میں معیشت کی بحالی کے امکانات پیداہوں۔ جہاں تک جسٹس حمودالرحمان کی سربراہی میں 1971ءکی جنگ کے حوالے سے مرتب کی گئی رپورٹ کا تعلق ہے جوکہ 1974ءمیں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے انتہائی خفیہ دستاویزقرارپائی۔ مذکورہ رپورٹ 2000ءمیں بھارتی خفیہ ادارے ”را“ کے زیر کنٹرول شائع ہونےوالے جریدے انڈیا ٹوڈے میں کیسے اور کس طرح شائع ہوگئی؟ پہلے تو یہ طے کیا جائے کہ بھارت میں 30 برسوں بعد منظرعام پرآنےوالی حمودالرحمان کمیشن رپورٹ اصلی ہے یا جھوٹ پر مبنی ہے۔ اگر اصلی ہے تو تحقیقات کی جائیں کہ یہ بھارت تک کیسے پہنچی؟