ملک بھر میں بجلی کا شارٹ فال 5ہزار 688 میگاواٹ تک پہنچ گیاجبکہ لائن لاسز والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12سے 14گھنٹے ہے۔ ملک میں بجلی کی طلب 25ہزار میگاواٹ جبکہ بجلی کی پیداوار 19ہزار 312 میگاواٹ ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف دنیا کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کے لیے ملکوں ملکوں جا رہے ہیں۔ بہت سے ممالک کے بزنس مین اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کر رہے ہیں۔ایسے کاروباروں کے لیے توانائی کا نہ صرف وافر مقدار میں بلکہ اس کے نرخوں کا مناسب ہونا بھی ضروری ہے۔جس ملک میں چھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوگی اور بجلی کی قیمت میں ہر مہینے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اضافہ کر دیا جائے وہاں سے تو ملکی سرمایہ کار بھی باہر چلےجاتے ہیں ،پاکستان میں کون آئے گا۔لیسکو کی طرف سے اعتراف کیا گیا کہ بجلی کی کھپت میں سولر سسٹم کے باعث 4.7 فیصد کمی آئی ہے۔سولر کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی تو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے مگر اس سسٹم کے ذریعے صرف ایک فیصد بجلی پیدا ہوتی ہے۔ 2023ءکی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی سے 60 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ کہاں 60 ہزار میگا واٹ اور کہاں ضرورت صرف 25 ہزار میگا واٹ کی اور وہ بھی تمام ذرائع سے جن میں پانی سے 6ہزار 780میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے۔ نجی تھرمل پاور پلانٹس 875 میگاواٹ، ونڈ پاور پلانٹس سے ایک ہزار میگاواٹ، سولر پاور پلانٹس سے 192 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔تھرمل کے علاوہ دیگر تمام ذرائع سے سستی بجلی پیدا ہو سکتی ہے اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگر ہم سورج اور پانی سے بھی بجلی وافر مقدار میں پیدا نہیں کر سکتے تو یہ ہماری بدقسمتی ہے۔لائن لاسز اور بجلی چوری کا رونا کئی دہائیوں سے رویا جا رہا ہے لیکن اصلاح کا کوئی اقدام نظر نہیں آ رہا۔پاکستان میں بجلی کی کمی کے ذمہ دار حکمران طبقے کے ساتھ ساتھ وہ بیوروکریٹس بھی ہیں جنہوں نے پالیسیاں بنانی ہوتی ہیں۔ آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے جس میں وافر اور سستی توانائی کی ضرورت ہے۔ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے لیے فوری طور پر شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر عوام لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مسلسل مبتلا رہیں گے۔